کشمیری طالبات کی پرائیویسی کے ساتھ کھلواڑ، ذاتی معلومات ظاہر کردی گئیں
طالبات کے اس گروپ نے مزید کہا کہ کشمیری طلبا بالخصوص طالبات پرائیویسی کو لیکر بہت حساس ہیں۔ ہمارے لئے پرائیویسی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کل کو اگر ہمارے ساتھ کچھ ہوا تو کون ذمہ داری لے گا؟
سری نگر: جموں وکشمیر حکومت کے محکمہ اعلیٰ تعلیم اور ملک کے مختلف حصوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کی مدد کے لئے تعینات لیزان آفیسرس پر ان طلبا کی پرائیویسی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا الزام ہے۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم اور لیزان آفیسرس کی نگرانی میں جموں وکشمیر کے اُن طلبا کی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں جو کورونا وائرس کے پیش نظر اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے خواہشمند ہیں، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر نہ صرف ان فہرستوں میں طلبا کے موبائل نمبرات اور دیگر ذاتی معلومات شامل کی گئی ہیں بلکہ ان فہرستوں کو پبلک ڈومین میں بھی جاری کیا گیا ہے، جس پر طالبات اور ان کے والدین نے اپنے تحفظات و اعتراضات کا اظہار کیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طالبات کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کو فون پر بتایا کہ حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر طلبا کی گھر واپسی کے لئے جو فہرستیں مرتب کی ہیں ان میں طلبا کی ذاتی معلومات شامل کی گئی ہیں اور ان فہرستوں کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر پبلک ڈومین میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ افسران نے ایسا کرکے نہ صرف لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ طلبا بالخصوص طالبات کی پرائیویسی کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا ہے۔
طالبات کے اس گروپ کا کہنا تھا کہ 'ہم نے انٹرنیٹ پر ایک ایسی فہرست دیکھی جس میں ہماری تمام ذاتی معلومات بشمول موبائل نمبر، والدین کے نام، مکمل رہائشی پتہ موجود ہے۔ ہم نے علی گڑھ میں کشمیری طلبا کی مدد کے لئے تعینات لیزان افسر سنجے پنڈتا سے بات کی۔ ہم نے اُن سے گزارش کی کہ فہرست سے کم از کم فون نمبرات حذف کیے جائیں۔ لیزان افسر نے کہا کہ ہاں ایسا میں کرسکتا ہوں لیکن ابھی بھی موبائل نمبرات فہرست میں موجود ہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'پھر ہم نے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے سکریٹری طلعت پرویز سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ آج کل تو مواصلاتی کمپنیاں آپ کی اجازت کے بغیر ہی آپ کا ڈاٹا پڑھ لیتی ہیں۔ انتظامیہ کے اعلیٰ افسر اتنی غیر ذمہ داری سے کام کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ بچگانہ حرکت ہے۔ فہرست میں ذاتی اور تعلیمی اداروں کے ناموں کا ذکر ٹھیک تھا لیکن موبائل نمبر اور گھر کا پتہ شامل کرنا سمجھ سے باہر ہے'۔
طالبات کے اس گروپ نے مزید کہا کہ کشمیری طلبا بالخصوص طالبات پرائیویسی کو لیکر بہت حساس ہیں۔ ہمارے لئے پرائیویسی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کل کو اگر ہمارے ساتھ کچھ ہوا تو کون ذمہ داری لے گا؟ یو این آئی اردو نے معاملے کو لیکر سنجے پنڈتا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بھی معلوم نہیں کہ فہرستیں پبلک ڈومین میں کیسے آگئیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ فہرستوں کو مرتب کرنے والے کون لوگ ہیں تو ان کا جواب تھا کہ یہ فہرستیں طلبا کے رجسٹریشن کے بعد محکمہ اعلیٰ کی جانب سے مرتب کی گئی ہیں۔ یو این آئی اردو نے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے سکریٹری طلعت پرویز روحیلا سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
جموں وکشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ترجمان ناصر کہویہامی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'پرائیویسی کا کھلواڑ۔ جموں وکشمیر انتظامیہ ہزاروں طلبا کی ذاتی معلومات پبلک رینڈم گروپس میں کیسے شیئر کرسکتی ہے۔ کیا طلبا بالخصوص طالبات کی پرائیویسی ان کے لئے ترجیح نہیں ہے؟ انتظامیہ اپنی نادان حرکتوں کے لئے جوابدہ ہے'۔
ذرائع نے بتایا کہ کورونا وائرس لاک ڈاون کے بیچ حکومت کی طرف سے ایسی کئی فہرستیں پبلک ڈومین میں لائی گئیں ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ایک فہرست وہ جاری کی گئی تھی جس میں اُن لوگوں کے نام، پتہ اور فون نمبرات شامل کیے گئے تھے جنہوں نے مبینہ طور پر دہلی کے حضرت نظام الدین علاقہ میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز پر حاضری دی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔