’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ پر تالا لگانے کا راستہ ہموار! اقلیتی طبقہ میں فکر کی لہر

مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کا ایک آفس آرڈر سامنے آیا ہے جس میں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا تذکرہ ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ سنٹرل وقف کونسل کی تجویز پر یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن</p></div>

مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن

user

قومی آواز بیورو

فروری 2022 میں جب مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایم اے ای ایف) کا بجٹ 90 کروڑ روپے سے گھٹا کر حکومت ہند کی وزارت برائے اقلیتی امور نے ایک لاکھ روپے کر دیا تھا تو خوب ہنگامہ ہوا تھا، لیکن اب جو خبریں سامنے آ رہی ہیں اس میں بتایا جا رہا ہے کہ فاؤنڈیشن کو سرے سے بند کرنے کا راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔ یعنی کسی بھی وقت اقلیتی طبقہ کے لیے سرگرم طریقے سے کام کرنے والے ایک ادارہ پر تالا لگنے کی خبر سامنے آ سکتی ہے۔

دراصل مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کا ایک آفس آرڈر سامنے آیا ہے جس میں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا تذکرہ ہے۔ اس آفس آرڈر پر 7 فروری 2024 کی تاریخ درج ہے اور دستخط حکومت ہند کے انڈر سکریٹری دھیرج کمار کا ہے۔ آفس آرڈر میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ فاؤنڈیشن کو بند کرنے کی جو کارروائی شروع ہوئی ہے وہ سنٹرل وقف کونسل (سی ڈبلیو سی) کے ذریعہ پیش کردہ ایک تجویز کا نتیجہ ہے۔ سنٹرل وقف کونسل وزارت اقلیتی امور کے تحت کام کرنے والا ایک ادارہ ہے جو کہ ملک میں اقلیتوں کے لیے تعلیمی امور کا انتظام و انصرام دیکھتا ہے۔


قابل ذکر بات یہ ہے کہ آفس آرڈر میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ سنٹرل وقف کونسل کے ذریعہ پیش کردہ تجویز پر فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن اس حیرت انگیز قدم اٹھانے کے پیچھے وجہ کیا ہے، اس سے متعلق کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی ہے۔ آفس آرڈر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 30 نومبر 2023 تک فاؤنڈیشن کے پاس مجموعی طور پر 1073.26 کروڑ روپے کا فنڈ ہے۔ فاؤنڈیشن کو مختلف شکلوں میں 403.55 کروڑ روپے کی ادائیگی بھی کرنی ہے، یعنی اس ادائیگی کے بعد 669.71 کروڑ روپے کا فنڈ بچے گا۔ یہ فنڈ کنسولیڈیٹیڈ فنڈ آف انڈیا (سی ایف آئی) کو منتقل کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ یعنی فاؤنڈیشن بند ہوا تو اس کا فنڈ حکومت ہند کے پاس چلا جائے گا۔

’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ پر تالا لگانے کا راستہ ہموار! اقلیتی طبقہ میں فکر کی لہر

انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ نے فاؤنڈیشن کو بند کیے جانے کا عمل شروع ہونے پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وزارت اقلیتی امور کے سینئر عہدیداروں نے اسے ایک ’داخلی معاملہ‘ بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو ابھی عوام کے سامنے ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ فاؤنڈیشن کے ایک رکن کے حوالے سے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابھی بات چیت جاری ہے اور آفس آرڈر کو عام نہیں کیا گیا ہے، آئندہ 4 مارچ کو ایک میٹنگ ہونے والی ہے، حالانکہ اس کا ایجنڈا ابھی تک نامعلوم ہے۔ یعنی فاؤنڈیشن سے منسلک افسران اس ادارہ کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، لیکن انھیں کامیابی ملے گی یا نہیں، کچھ بھی کہنا جلدبازی ہوگی۔


’ہندوستان ٹائمز‘ نے آفیشیل تبصرہ کے لیے وزارت برائے اقلیتی امور اور سنٹرل وقف کونسل سے رابطہ کیا، لیکن متعلقہ افسران نے کچھ بھی بیان دینے سے پرہیز کیا۔ وزارت برائے اقلیتی امور کا آفس آرڈر سامنے آنے کے بعد اقلیتی طبقہ میں فکر کی لہر دوڑ گئی ہے، لیکن وزارت برائے اقلیتی امور، سنٹرل وقف کونسل یا مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا کوئی بھی رکن کھل کر اپنی بات نہیں رکھ رہا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فاؤنڈیشن کے ایک رکن نے اتنا ضرور کہا کہ دو تین لوگ ایسے ہیں جو فاؤنڈیشن کو ہر حال میں بند کرانے پر آمادہ ہیں۔

’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ پر تالا لگانے کا راستہ ہموار! اقلیتی طبقہ میں فکر کی لہر

فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا عمل شروع کیے جانے پر چھتیس گڑھ کے سابق ڈی جی پی محمد وزیر انصاری (جو فاؤنڈیشن کے سکریٹری بھی رہ چکے ہیں) نے حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ اردو روزنامہ ’تصدیق‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’یہ حیرت انگیز اور اقلیتوں کے لیے بدقسمتی والا فیصلہ ہے۔ یہ پانچوں اقلیتی طبقات، خصوصاً مسلمانوں، عیسائیوں و سکھوں کے لیے زبردست دھچکا ہے۔ فاؤنڈیشن بند ہوا تو لاکھوں طلبا و طالبات متاثر ہوں گے۔ اس کی اسکالرشپ اسکیموں سے لاکھوں بچے اب تک مستفید ہو چکے ہیں اور یہ اسکالرشپ جاری رہنی چاہیے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’یہ ادارہ اسکول کی عمارت، لائبریری اور کمپیوٹر سنٹرس کے لیے امدادی رقم جاری کر بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط بناتا رہا ہے۔ جب میں اس کا سکریٹری تھا تو 1500 سے زائد اداروں نے اپنے انفراسٹرکچر کو وسعت دینے کے لیے گرانٹ حاصل کی تھی۔‘‘


محمد وزیر انصاری نے اس معاملے میں مرکز کی بی جے پی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ دیکھنا تکلیف دہ ہے کہ حکومت مسلمانوں سے متعلق اداروں کو مضبوط کرنے کی جگہ اس کو تباہ کر رہی ہے۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کرنے کی کوشش اس کی تازہ مثال ہے۔ حکمراں طبقہ نہ صرف مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینے والے اداروں پر حملہ کر رہا ہے بلکہ مساجد و مدارس بھی اس کی زد میں ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔