مشہور خاتون صحافی سجاتا آنندن کا انتقال، صحافتی طبقہ میں غم کی لہر

صحافتی طبقہ، خصوصاً ممبئی کے صحافی سجاتا آنند کی موت سے حیرت میں ہیں، سجاتا کا گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا، وہ گزشتہ کئی سالوں سے نیشنل ہیرالڈ کی صلاح کار مدیر تھیں۔

<div class="paragraphs"><p>سجاتا آنندن کی فائل تصویر، بشکریہ نوجیون انڈیا ڈاٹ کام</p></div>

سجاتا آنندن کی فائل تصویر، بشکریہ نوجیون انڈیا ڈاٹ کام

user

قومی آواز بیورو

آخر وقت تک وہ کام کرتی رہیں۔ گزشتہ کئی سال سے وہ نیشنل ہیرالڈ کی صلاح کار مدیر تھیں، سجاتا آنندن نے نیشنل ہیرالڈ کا ممبئی ایڈیشن شروع کرنے میں انتہائی اہم کردار نبھایا تھا۔ اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے بدھ کی دیر شب تک وہ کام کر رہی تھیں۔ گزشتہ شب تقریباً نو بجے ان کا میسج آیا تھا، جب انھوں نے فائنل رپورٹ بھیجی تھی… ’ساری فار دی ڈیلے، واز اِن اے کرائسس‘۔ سجاتا زندگی کی چھ دہائی دیکھ چکی تھیں اور ساتویں دہائی میں قدم رکھنے والی تھیں۔ وہ نوی ممبئی میں اپنی بہن کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔

گزشتہ دنوں طبیعت خراب ہونے پر وہ اسپتال میں داخل ہوئی تھیں، لیکن وہاں سے بھی وہ لگاتار کام کرتی رہیں۔ ساتھی یاد کرتے ہیں کہ کس طرح سے وہ اسپتال کے بستر سے رپورٹ بھیجتی رہیں اور تصحیح وغیرہ کراتی رہیں۔


سجاتا آنندن نے یو این آئی، دی انڈین ایکسپریس، ہندوستان ٹائمز، آؤٹ لک اور نیشنل ہیرالڈ میں مستقل کام کیا۔ ہر جگہ انھوں نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ ان کے مدیر یاد کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی ’ساؤتھ ممبئی‘ جرنلسٹ تھیں جو سماجی معاملات کے لیے ہمیشہ تیار کھڑی رہیں اور ترقی پذیر اصولوں کی حامی رہیں۔ اس کے علاوہ سجاتا فٹ پاتھ اور جھگیوں میں رہنے والوں کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کرتی رہیں۔

سجاتا آنندن ایک اعلانیہ اور فخر آمیز سیکولر تھیں، اور اسے کھل کر کہنے میں انھیں کبھی کوئی جھجک نہیں ہوئی۔ وہ کسی بھی قسم کی کٹرپسندی کی سخت مخالف رہیں اور اس تعلق سے ہمیشہ آواز اٹھاتی رہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں ہی لکھا تھا کہ وہ ایک ہندو ہیں، لیکن وہ ایسے رام مندر میں کبھی پوجا نہیں کریں گی جس کی بنیاد میں خون ملا ہو۔


مہاراشٹر کے تمام سیاستدانوں اور سابق وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ان کے گہرے رشتے رہے ہیں، کیونکہ سجاتا کی ایمانداری اور خود مختاری پر ہمیشہ سب نے بھروسہ کیا۔ جو لوگ سجاتا کو جانتے ہیں، بتاتے ہیں کہ وہ کیسے کئی بار زمانہ سے ہٹ کر لوگوں کی مدد کرتی تھیں، بھلے ہی وہ ان کو اچھے سے جانتی بھی نہ ہوں۔ لوگوں کو کالج میں داخلہ دلانا ہو یا کسی اسپتال میں داخل کرانا ہو، یا کسی کو کسی اچھے ڈاکٹر کا اپوائنٹمنٹ دلوانا ہو، سجاتا ہمیشہ آگے بڑھ کر مدد کرتی تھیں۔

اتنا ہی نہیں، وہ تمام صحافیوں کو نئی اطلاعات دے کر بھی مدد کرتی رہیں۔ ان کے ایک ساتھی مدیر نے کہا کہ ’’وہ ایک نایاب سیاسی صحافی تھیں، جو گرمجوشی سے بھری ہوئی تھیں اور کھلے انداز میں ملتی تھیں، وہ ہمیشہ لوگوں اور ملک کے بارے میں فکر مند رہتی تھیں۔‘‘


ممبئیکر اور کانگریس کی حامی سجاتا نے ایک بار قصہ سنایا تھا کہ کس طرح اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور راہل گاندھی سے ملاقات کی۔ کس طرح انھوں نے ان لیڈران سے پریشان کرنے والے سوال پوچھے اور ان لیڈران کے جواب سے وہ کس طرح حیرت میں رہ گئی تھیں۔ سجاتا سوشل میڈیا پر بہت فعال رہتی تھیں اور وہاں کھل کر اپنی بات رکھتی تھیں۔ بی جے پی و آر ایس ایس کے نظریات کی کھل کر مخالفت کرتی تھیں۔ کئی بار وہ ٹرول کو غصے میں خوب کھری کھوٹی بھی سناتی تھیں۔

’ہندوستان ٹائمز‘ میں سجاتا کے ساتھی سابق مدیر ویر سنھگوی نے ان کے انتقال پر لکھا ہے ’’سجاتا کے جانے سے بے حد تکلیف میں ہوں۔ وہ ایک شاندار سیاسی کمنٹیٹر تھیں۔ وہ ان پہلے لوگوں میں تھیں جنھیں میں نے ایچ ٹی کے ممبئی ایڈیشن کی لانچ کے لیے رکھا تھا۔ وہ اس کی ایک مضبوط ستون بنی رہیں۔ وہ منکسر المزاج، مددگار، حساس تھیں، دراصل وہ بے حد اسپیشل تھیں۔‘‘


اینکر، صحافی، رائٹر اور کالم نگار راجدیپ سردیسائی نے لکھا ’’سینئر صحافی سجاتا نہیں رہیں۔ سجاتا نے سالوں تک مہاراشٹر کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا۔ انھوں نے شیوسینا پر ایک شاندار کتاب لکھی۔ 80 اور 90 کی دہائی کے ہم صحافی اس نسل کے لوگ ہیں جب نیوز شور شرابہ والی نہیں ہوتی تھی۔ اوم شانتی…۔‘‘

پرسال بھارتی کی سابق سربراہ اور نیشنل ہیرالڈ کی ادارتی مشیر رہی مرنال پانڈے نے بھی سجاتا کے انتقال پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے ’’سجاتا تم صحافیوں کی اس جماعت کی تھیں جنھوں نے صحافتی اقدار کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ تمھاری ہمیشہ یاد آئے گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔