فوجی جوانوں پر قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ، ناگالینڈ کی عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکز کو بھیجا نوٹس

فوجی اہلکاروں پر الزام ہے کہ انھوں نے 2021 میں شورش پسند سمجھ کر 13 عام شہریوں کا قتل کر دیا تھا، اس معاملے میں آئندہ سماعت 3 ستمبر کو ہوگی۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ناگالینڈ حکومت نے ریاست کے مون ضلع میں فوجی جوانوں کے ذریعہ مبینہ طور پر عام شہریوں کے قتل سے متعلق سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ معاملہ 2021 کا ہے اور ناگالینڈ حکومت نے ملزم 30 فوجی اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کی منظوری نہ دیے جانے سے متعلق مرکزی حکومت کے فیصلہ کو چیلنج کیا ہے۔ ناگالینڈ حکومت کی عرضی پر اب سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کر جواب طلب کیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ فوجی اہلکاروں پر الزام ہے کہ انھوں نے 2021 میں شورش پسند سمجھ کر 13 عام شہریوں کا قتل کر دیا تھا۔ اس معاملے میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے پیر کے روز ریاستی حکومت کی دلیلوں پر غور کیا اور مرکز و وزارت دفاع کو نوٹس جاری کیا۔ ناگالینڈ کی عرضی پر اب سپریم کورٹ میں 3 ستمبر کو سماعت ہوگی۔


قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اپریل میں مرکزی حکومت نے ناگالینڈ کے مون ضلع واقع اوٹنگ میں منصوبہ بند طریقے سے کیے گئے حملہ میں مبینہ طور سے شامل فوجی اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ریاستی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت رِٹ پٹیشن داخل کی ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے عرضی داخل کی جا سکتی ہے۔ ناگالینڈ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس میجر سمیت فوجی جوانوں کے خلاف پختہ ثبوت موجود ہیں، پھر بھی مرکزی حکومت نے منمانے طریقے سے ملزم فوجی اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ فوج کی ٹیم نے کوئلہ کانکنوں کو لے جا رہے ایک بولیرو پِک اَپ وین پر بغیر کسی الرٹ کے یا ان سے اپنی شناخت بتانے کے لیے کہے بغیر گولیاں چلا دی تھیں۔ اس میں 13 عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ حالانکہ فوجی اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے مارے گئے لوگوں کی شناخت کر لی تھی کیونکہ وہ بندوق اور اسلحے لے جا رہے تھے۔ وہ گہرے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور جلدی سے گاڑی میں کود گئے تھے۔ ایسے میں خطرے کو دیکھتے ہوئے انھوں نے گولیاں چلائیں۔ جولائی 2022 میں عدالت عظمیٰ نے ملزم فوجی اہلکاروں کی بیویوں کی عرضی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جوانوں کے خلاف مقدمہ چلانے پر روک لگا دی تھی۔ دراصل اپنی عرضی میں فوجی اہلکاروں کی بیویوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مرکز سے مقدمہ کے لیے ضروری اجازت لیے بغیر ان کے شوہروں پر ریاست کے ذریعہ مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔