ہندوستانی اقلیتوں کا امتحان جاری، دوراندیشی سے کام لینا ہوگا...سید خرم رضا

حکومت وقت کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اسے سیٹیں توقع سے کم ملی ہیں اور اس میں ملک کی اقلیتوں کا اہم کردار ہے۔ اس کے لئے حکمراں پارٹی کی کوشش ہے کہ وہ ملک کی اقلیتوں کو حزب اختلاف سے دور لے جائے

<div class="paragraphs"><p>ہندوستانی مسلمان / Getty Images</p></div>

ہندوستانی مسلمان / Getty Images

user

سید خرم رضا

ہندوستان کی برسراقتدار جماعت نے ملک کے ایک طبقہ کی سیاست اس شدت کے ساتھ کی کہ دوسرا طبقہ، جس کی تعداد کم تھی، وہ خودبخود اس سے دور ہوتا چلا گیا۔ برسراقتدار حکمراں جماعت کو اس بات کا احساس رہا ہے کہ اگر اس نے اس کم تعداد والے طبقہ کے لئے کسی بھی قسم کی لب کشائی کی تو نتیجے میں اس کی اپنی حمایت کم ہو جائے گی کیونکہ اس نے خود کو اکثریتی طبقہ کے علمبردار کے طور پر پیش کیا ہوا ہے۔ اس کم تعداد والے طبقہ یعنی اقلیت کو بھی اس بات کا احساس ہوا اور اس کی ایک بڑی تعداد نے انتخابات کو ہی اپنی بقا کا ہتھیار بنایا اور اس نے ان افراد اور رہنماؤں کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا جن کی سوچ کسی مخصوص طبقہ کی ترقی نہیں تھی بلکہ سب کی ترقی مقصود تھی۔

انتخابی نتائج نے یہ بات واضح کر دی کہ ملک کے عوام کسی ایک پارٹی کو اکثریت دینے کے حق میں نہیں ہیں اور انہوں نے ایک اتحاد کو حکومت سونپی اور دوسرے اتحاد کو حزب اختلاف کے کردار کے لئے منتخب کیا لیکن جس انداز سے عوام نے اپنا فیصلہ دیا اس نے حزب اختلاف میں بھی جان پھونک دی، جو کسی بھی جمہوریت کے لئے ایک اچھا شگون ہے اور برسراقتدار حکمراں اتحاد کو بھی یہ احساس کرا دیا کہ سب کچھ ان کی مرضی سے نہیں ہوگا بلکہ نئے دور میں سب کی رائے لینا ضروری ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ عوام کے فیصلے سے جہاں حزب اختلاف کا اتحاد یہ سوچنے لگا کہ اس نے جیسے حکومت حاصل کر لی ہو اور حقیقت کو مسترد کرتی حکمراں پارٹی بھی یوں ظاہر کرنے لگی جیسے دور تبدیل نہیں ہوا ہے۔


لیکن ملک کے کم تعدد والے طبقہ یعنی اقلیتوں کے لئے امتحان کا دور ختم نہیں ہوا ہے۔ بہت سے مبصرین عوام کے موجودہ فیصلے کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں کسی بھی جماعت کی اکثریت یا یوں کہئے حزب اختلاف کی حکومت ان کے لئے پریشانیوں میں اضافہ کر سکتی تھی جنہوں نے اس کو اقتدار کے قریب لانے میں کردار ادا کیا ہے۔ حکومت وقت کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اسے سیٹیں توقع سے کم ملی ہیں اور اس میں ملک کی اقلیتوں کا اہم کردار ہے۔ اس کے لئے حکمراں پارٹی کی کوشش ہے کہ وہ ملک کی اقلیتوں کو حزب اختلاف سے دور لے جائے۔ حکومت اس کے لئے اپنے پرانے آزمائے ہوئے طریقوں یعنی ڈر اور تقسیم کا استعمال کر رہی ہے۔ دراصل حکومت اقلیتوں کو ہمنوا بنانے کے لئے ان کی دل جوئی نہیں کر سکتی کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے اس کے حامی کہیں اس سے دور نہ چلے جائیں۔

خوف کے لئے اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اور تقسیم کے لئے متنازعہ ایشوز پر افراد اور تنظیموں کی رائے استعمال کی جاتی ہے۔ حکمراں جماعت کے لئے تقسیم کے کام کو تیز اور آسان کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کرد یا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے بہت تیزی کے ساتھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اسٹوڈیو میں بلانا اور بحث میں شریک کرنا شروع کر دیا ہے۔ اقلیتوں کی تنظیمیں تو ہمیشہ سے متنازعہ مسائل پر چارہ ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی مخالفت اور عدالت سے رجوع کرنے کے ان کے اعلان سے ان کو تو فائدہ ہوتا ہی ہے ساتھ ہی مرکزی مسائل سے توجہ ہٹانے کا بھی موقع مل جاتا ہے اور اس عمل میں اقلیتوں کا صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔


یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملک کی اقلیتیں امتحان کے دور سے گزر رہی ہیں تقریباً دس سال سے خاموش اقلیتیں اب اپنی آواز بلند کرنا چاہتی ہیں اور وہ ملک کے مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہیں لیکن شاید ان کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ برسراقتدار جماعت کے دل میں یہ بات بہت اندر تک گھر کر گئی ہے کہ ان کو ہدف سے دور رکھنے میں ملک کی اقلیتوں کا کردار بہت اہم ہے۔ دوسری جانب ملک کی اقلیتوں کے پاس حزب اختلاف کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے کیونکہ حکمراں جماعت کی سیاست میں ایک طبقہ کی مذہبی سیاست بہت حاوی ہے۔ اب بے چارہ ملک کا اقلیتی طبقہ جائے تہ جائے کہاں؟ ان کا امتحان جاری ہے اور ان کو اس ملک کی ترقی کی خاطر بہت ہوشیاری اور دوراندیشی سے کام لینا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔