سیاست صرف محرومین کو حق دلانے کے لئے ہونی چاہئے...سید خرم رضا

یہ تنظیمیں چاہے لاکھ ملک کی ترقی کی بات کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی ایک مذہب کے فروغ کی بات کرتے ہیں، ملک کی ترقی ان کی ترجیح کبھی نہیں ہو سکتی

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

سید خرم رضا

کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کی جو سیاست ہے وہ حیدرآباد اور ہندوستان کے مسلمانوں تک محدود ہے۔ قانونی اور تکنیکی اعتبار سے اس جماعت میں کچھ غیر مسلم حضرات بھی ہوں گے لیکن جیسا جماعت کے نام سے ہی پتہ لگتا ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرتی ہے۔ اویسی کی اس سیاست سے ان کو ذاتی طور پر فائدہ ضرور ہوتا ہوگا اور ساتھ میں ہندوتوا کی علمبردار تنظیموں کو بھی فائدہ ہوتا ہوگا۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ یہ تنظیم دانستہ طور پر ہندوتوا کی علمبردار تنظیموں کو فائدہ پہنچاتی ہے یا ان کو غیر دانستہ طور پر فائدہ پہنچ جاتا ہے لیکن ان پر اکثر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ ان کی سیاست سے ہندوتوا کی تنظیموں کو خوب فائدہ پہنچتا ہے اور بیچارے ہندوستانی مسلمان خود کو ٹھگا سا محسوس کرتے ہیں۔

اویسی پر الزام اس لئے لگایا جاتا ہے کیونکہ ان کی جو سیاست ہے کچھ ویسی ہی سیاست ہندوتوا کی علمبردار تنظیموں کی بھی ہے، یعنی دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اویسی کی جماعت ہو یا ہندوتوا کی علمبردار تنظیموں کی بات ہو دونوں کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی مذہبی طبقہ اور اس کے مفاد کی بات کرنا ہے۔ اپنے نظریہ کے فروغ کے لئے دونوں کے پاس مذہبی چارا ہے اور وہ اس چارے کو اپنے حامیوں میں پروستے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہب کو ماننے والے اور اس کو جینے والوں کی تعداد بہت ہے جس کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا طبقہ اس چارے کو خوب شوق سے کھاتا اور ہضم کرتا ہے۔


یہ تنظیمیں چاہے لاکھ ملک کی ترقی کی بات کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی ایک مذہب کے فروغ کی بات کرتے ہیں، ملک کی ترقی ان کی ترجیح کبھی نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ تنظیمیں یہ دلیل دے کر اپنے مقاصد کو جائز ٹھہرائیں کہ ملک میں ہر طبقہ اپنے طبقے کے لئے سیاسی اور سماجی طور پر کام کرتا ہے، تو ان کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ سماجی طبقوں کی بنیاد پر محروم طبقوں کے لئے کام کرتی ہیں لیکن ان مذہب کے نام سے چل رہی تنظیموں کا مقصد صرف اور صرف مذہبی بنیاد پر سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ نفرت کی سیاست کرنے سے ملک ترقی نہیں کر سکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسی سیاست سے انفرادی طور پر کچھ افراد اور کچھ تنظیموں کو فائدہ ضرور ہو سکتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایسی سیاست سے ملک کو نقصان ہوتا ہے اور اس سے دشمنوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ کانگریس نے ملک کو نیا راستہ دکھایا ہے اور اس نے خود کو ملک میں محرومین کی آواز بننے کی سمت قدم اٹھایا ہے۔ آزادی کے بعد اسے حاصل کرنے کا جو نشہ اور خوشی تھی اس کی وجہ سے کچھ سال گزر گئے لیکن رفتہ رفتہ اقتدار میں رہنے کی سیاست حاوی ہوتی چلی گئی اور دھیرے دھیرے یہ ہنر عام ہو گیا۔ اقتدار میں بنے رہنے کے لئے سیاست دانوں نے تمام اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا چاہے اس میں خواتین کی عصمت دری ہو، گاڑی سے کسانوں کے کچلے جانے کا معاملہ ہو یا کسانوں اور پہلوانوں کے احتجاج کا معاملہ ہو۔


اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے جہاں طاقتور لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا گیا، وہیں معاشی بدعنوانی کو اقتدار میں بنے رہنے کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا اور ان سب کے حصول کے لئے مذہبی اور ایک دوسرے سے نفرت کی سیاست کو لاشعوری طور پر پروان چڑھایا گیا۔ اگر جلد ہی اس طرح کی سیاست کو خیر باد نہیں کیا گیا اور سماج کے محروم طبقوں کی آواز سیاست داں نہیں بنے تو یہ نفرت کی آندھی ملک کو بہت پیچھے لے جائے گی جہاں پھر اویسی بھی مسلم نمائندگی کی بات نہیں کر پائیں گے اور ہندوتوا کے علمبردار بھی گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کر کے صرف پچھتائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔