راہل گاندھی کی سابقہ اور موجودہ شبیہ...سید خرم رضا

آج راہل گاندھی کی شبیہ بالکل بدل گئی ہے اور ان کے کٹر سے کٹر مخالفین بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ ان کا یہ عمل ہے کہ انہوں نے سماج اور سیاسی پارٹیوں سے لینے کی جگہ دینے کو ترجیح دی

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی / تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

راہل گاندھی / تصویر بشکریہ ایکس

user

سید خرم رضا

اگر یہ کہا جائے کہ راہل گاندھی واحد رہنما ہیں جنہوں آر ایس ایس اور وزیر اعظم مودی کے خلاف کھل کر جنگ لڑی ہے تو اس میں کچھ غلط نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں نے کہیں نہ کہیں اس مخالفت میں سمجھوتہ کیا یا ہاتھ ملایا جس کا ان کو فائدہ بھی ہوا۔ ہاتھ ملانے والوں یعنی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو جہاں ان کے خلاف چل رہے معاملات میں راحت ملی وہیں ان کو کسی نہ کسی طرح انعام سے بھی نوازا بھی گیا۔ راہل گاندھی اور ان کی والدہ کو ای ڈی دفتر میں پوچھ گچھ کے لئے بلایا گیا اور انہوں نے بنا ڈرے اس پوچھ گچھ میں حصہ لیا۔ راہل گاندھی کی جو شبیہ بنا دی گئی تھی اس کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ راہل کی اس شبیہ کو ختم کر کے نئی اور مثبت شبیہ بنائی جا سکتی ہے لیکن ان کی شبیہ تبدیل ہوئی اور اس کا سہرا ان کے ہی سر جاتا ہے۔

راہل گاندھی اور ان کی ٹیم کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ منفی شبیہ کے ساتھ نہ تو کوئی سیاسی پارٹی اتحاد کر نے کے لئے تیار ہوگی اور نہ کانگریس انتخابی میدان میں اتر سکتی ہے۔ منفی شبیہ کو ختم کر کے مثبت شبیہ بنانے کے لئے راہل گاندھی نے سب سے اہم فیصلہ یہ لیا کہ وہ اور ان کے گھر کا کوئی بھی فرد کسی عہدے پر فائز نہیں ہوگا اور اس کے لئے انہوں نے اپنے گھر میں سے کسی فرد کو کانگریس کی صدارت کے لئے کھڑا ہونے سے منع کر دیا، جس کے نتیجے میں پہلے گہلوت کا نام چلا اور بعد میں ملکارجن کھڑگے پارٹی کے صدر انتخابی عمل کے ذریعہ بن گئے۔ یہ شبیہ تبدیل کرنے میں سب سے اہم فیصلوں میں سے ایک تھا۔


اس کے بعد راہل گاندھی اور ان کی ٹیم نے جنوب میں کنیا کماری سے شمال میں کشمیر تک پیدل سفر کرنے کا اعلان کیا جس کا نام ’بھارت جوڑو یاترا‘ رکھا اور اس میں ایک نعرہ ’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان‘ سب سے زیادہ گونجا وہ تھا۔ اس پیدل یاترا کی شروعات میں لوگوں کے ذہن میں اس کو مکمل کرنے کو لے کر خدشات تھے اور کچھ مخالفین بھی ہوا دے رہے تھے لیکن اس یاترا کے کامیابی سے مکمل ہونے کے بعد راہل کی گاندھی کے خلاف بولنے والے اور ان کی منفی شبیہ بنانے والے نہ صرف خاموش ہو گئے بلکہ ان کے تعلق سے مثبت باتیں بھی شروع ہو گئیں۔

اس کے بعد راہل گاندھی نے جس طرح عوامی مسائل اٹھانے شروع کئے اور سرمایہ داروں کے خلاف کھل کر بولنا شروع کیا اس سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ ان کی اس شبیہ کو بہتر کرنے میں بی جے پی کا کردار بھی اہم رہا کیونکہ ان کی شکایت پر ان کی پارلیمنٹ سے نہ صرف رکنیت ختم ہو گئی بلکہ ان کو سرکاری رہائش بھی خالی کرنی پڑی جو انہوں نے طے شدہ مدت سے پہلے ہی بہت انکساری کے ساتھ خالی کر دی، جس نے ان کی شبیہ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عوام میں ان کی رکنیت ختم کرنے کو اڈانی کے خلاف بولنے سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا۔


پھر انہوں نے تمام حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو جمع کرنے کا کام شروع کیا اور سیاسی پارٹیوں کے اس اتحاد کو انڈیا کا نام دیا گیا۔ اتحاد انہوں نے صرف نام کے لئے قائم نہیں کیا بلکہ انہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں کو دل بڑا کر کے جگہ دی اور ان پارٹیوں کے قائدین کو کانگریسی کارکنان پر ترجیح دی، چاہے وہ اتر پردیش میں سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہو، مہاراشٹر میں سنجے نروپم کی بات نہ ماننے کی وجہ سے ان کا پارٹی چھوڑ کر جانا ہو یا بہار میں پپو یادو کو راشٹریہ جنتا دل کے ذریعہ پورنیہ کی سیٹ نہ دینا ہو جبکہ پپو یادو نے اپنی پارٹی کو کانگریس میں ہی ضم کر دیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں کانگریس نے اپنی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی سے بھی اتحاد کیا یعنی کانگریس اور خاص طور سے راہل گاندھی نے بڑے دل کا مظاہر کیا۔ اس دوران وہ مشرق سے مغرب تک پھر ایک یاترا پر روانہ ہوئے جس کا نام ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ رکھا گیا اور اس میں وہ صرف پیدل نہیں چلے بلکہ وقتاً فوقتاً بس سے بھی سفر کیا۔ اس کے اوقات کو لے کر اس وقت بہت کچھ کہا گیا لیکن آخر میں اس کی تعریف ہی ہوئی۔

راہل گاندھی کی جب سارے معاملے میں مثبت شبیہ بن گئی تو انہوں نے انتخابی مسائل کا انتخاب کیا جس میں مہنگائی اور بے روزگاری کو تو اہمیت دی لیکن دلتوں اور غریبوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لئے آئین کی حفاظت کا مسئلہ اٹھایا اور اپنے انتخابی جلسوں میں آئین کی کاپی کو دکھانا اپنی شناخت بنا لیا۔ اس سارے معاملے میں انہوں نے جتنا وزیر اعظم مودی پر حملہ کیا اتنی ہی شدت کے ساتھ آر ایس ایس کو بھی اپنا ہدف تنقید بنایا۔

آج راہل گاندھی کی شبیہ بالکل بدل گئی ہے اور ان کے کٹر سے کٹر مخالفین بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ ان کا یہ عمل ہے کہ انہوں نے سماج اور سیاسی پارٹیوں سے لینے کی جگہ دینے کو ترجیح دی۔ راہل گاندھی کی اس مثبت شبیہ کے پیچھے صرف اور صرف ان کی ایمانداری اور عوام سے جڑ کر ان کے مسائل کو اٹھانا ہی سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی کے تکبر، جھوٹ اور غلط فیصلوں نے اس شبیہ کو تبدیل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔