علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار معاملہ میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا، 7 ججوں کی آئینی بنچ کی سماعت مکمل
معاملہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زبانی طور پر کہا کہ کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ سے صرف اس لیے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ اسے مرکزی یا ریاستی حکومت کے بنائے قانون کے ذریعے منظم کیا جا رہا ہے
نئی دہلی: چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی سات رکنی آئینی بنچ نے جمعرات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ بنچ نے مرکز کی نمائندگی کرنے والے سینئر لاء افسران، اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور اپیل کنندگان کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون، کپل سبل اور دیگر کے زبانی دلائل پر سماعت مکمل کر لی۔
سی جے آئی چندرچوڑ کی قیادت والی سات ججوں کی بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، سوریہ کانت، جے بی پارڈی والا، دیپانکر دتہ، منوج مشرا اور ایس سی شرما بھی شامل ہیں۔ آئینی بنچ 2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے پیدا ہونے والے ایک ریفرنس کی سماعت کر رہی تھی، جس نے 1981 کی ترمیم کو ختم کر دیا تھا جس نے ادارے کو اقلیتی درجہ دیا تھا۔
پارلیمنٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (ترمیمی) ایکٹ 1981 کی بنیاد پر ادارے کو اقلیتی درجہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ اقدام 1967 کے عزیز باشا کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے فیصلے کے بعد آیا جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو ایک مرکزی یونیورسٹی ہے، لہذا یہ اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔
سماعت کے دوران جسٹس چندر چوڑ نے زبانی طور پر کہا کہ کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ سے صرف اس لیے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ اسے مرکزی یا ریاستی حکومت کے بنائے ہوئے قانون کے ذریعے منظم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ایک ریگولیٹڈ ملک میں کچھ بھی پرفیکٹ نہیں ہے۔ محض اس لیے کہ انتظامیہ کا حق کسی قانون کے ذریعے منضبط ہوتا ہے، ادارے کے اقلیتی کردار کو متاثر نہیں کرتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔