کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے مغربی بنگال میں 77 مسلم ذاتوں کا او بی سی درجہ ختم
ہائی کورٹ نے کہا کہ ان ذاتوں کو او بی سی قرار دینے کا واحد پیمانہ مذہب ہی معلوم ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی 77 ذاتوں کو پسماندہ کے طور پر منتخب کرنا پوری مسلم کمیونٹی کی توہین ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے درمیان کلکتہ ہائی کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جس سے مغربی بنگال کے 5 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ دراصل کلکتہ ہائی کورٹ نے مغربی بنگال حکومت کی جانب سے 2010 کے بعد جاری او بی سی کے تمام سرٹیفکیٹس کو رد کر دیا ہے۔ اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے اپریل 2010 سے ستمبر 2010 تک او بی سی کے تحت مسلمانوں کی 77 ذاتوں کو دیے گئے ریزرویشن اور 2012 کے قانون کے مطابق ان کے لیے بنائے گئے 37 زمروں کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ اس فیصلے کے دن سے منسوخ شدہ سرٹیفکیٹس کو ملازمت کے کسی بھی عمل میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے تقریباً پانچ لاکھ او بی سی سرٹیفکیٹ ردی کے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ جسٹس تپبرت چکرورتی اور راج شیکھر منتھا کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ جن امیدواروں کو ان سرٹیفکیٹس کے ذریعے پہلے ہی موقع مل چکا ہے وہ اس فیصلے سے متاثر نہیں ہوں گے۔ بنچ نے اپنے فیصلے میں ترنمول حکومت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ لیکن چونکہ ریاست میں ترنمول کانگریس 2011 کے بعد اقتدار میں آئی ہے، اس لیے عدالت کا حکم صرف ترنمول حکومت کی طرف سے جاری کردہ او بی سی سرٹیفکیٹس پر ہی نافذ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں : لوک سبھا انتخابات: جنوبی دہلی میں مقابلہ قریبی...سید خرم رضا
ہائی کورٹ کا یہ حکم 2012 کے ایک مقدمے میں آیا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے بعد بنچ نے کہا کہ 2010 کے بعد بنائے گئے تمام او بی سی سرٹیفکیٹ قانون کے مطابق نہیں ہیں۔ اسمبلی کو دیگر پسماندہ طبقات سے متعلق فیصلہ کرنا ہے۔ مغربی بنگال پسماندہ طبقات بہبود کمیشن او بی سی کی فہرست کا تعین کرے گا۔ فہرست کو اسمبلی میں بھیجا جائے، جو نام اسمبلی سے منظور ہوں گے انہیں ہی مستقبل میں او بی سی قرار دیا جائے گا۔ مسلم ذاتوں کو او بی سی درجہ دیے جانے سے متعلق ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ان ذاتوں کو او بی سی قرار دینے میں مذہب ہی واحد پیمانہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی 77 ذاتوں کو پسماندہ کے طور پر منتخب کرنا پوری مسلم کمیونٹی کی توہین ہے۔ عدالت کا ذہن اس شبہ سے خالی نہیں کہ اس کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے ایک شے سمجھا جاتا رہا ہے۔ او بی سی میں 77 ذاتوں کو شامل کرنے اور ان کی شمولیت کا سلسلہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
دراصل ریاست کے ریزرویشن ایکٹ 2012 کی دفعات کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز ان درخواستوں پر حکم جاری کیا۔ عرضداشت داخل کرنے والوں کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ 2010 کے بعد سے مغربی بنگال میں او بی سی کے تحت درج افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) کی قیادت میں بایاں محاذ مغربی بنگال میں مئی 2011 تک اقتدار میں تھا اور اس کے بعد ترنمول کانگریس کی حکومت آئی۔ اب عدالت نے مغربی بنگال پسماندہ طبقات (درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے علاوہ) ایکٹ 2012 کے تحت او بی سی کے طور پر ریزرویشن کا فائدہ حاصل کرنے والے 37 ذاتوں کو متعلقہ فہرست سے ہٹا دیا تھا۔ عدالت نے اس طرح کی درجہ بندی کی سفارش کرنے والی رپورٹ کے غیر قانونی ہونے کی وجہ سے 77 ذاتوں کو او بی سی کی فہرست سے ہٹایا، نیز 37 ذاتوں کو مغربی بنگال پسماندہ طبقات کمیشن سے مشورہ نہ کرنے کی وجہ سے ہٹایا گیا۔ بنچ نے 11 مئی 2012 کے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کو بھی منسوخ کر دیا جس میں کئی ذیلی زمرے بنائے گئے تھے۔
جسٹس تپبرت چکرورتی اور جسٹس راج شیکھر منتھا کی ڈویژن بنچ نے اپنے 211 صفحات کے حکم میں واضح کیا ہے کہ ریاستی حکومت کے 2010 سے پہلے کے او بی سی کی 66 کیٹگریز کے ایگزیکٹیو آرڈرز میں مداخلت نہیں کی گئی، کیونکہ عرضداشتوں میں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔ عدالت نے ستمبر 2010 کے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کو بھی منسوخ کر دیا جس میں او بی سی ریزرویشن کو 7 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا گیا تھا۔ اس میں اے کیٹگری کے لیے 10 فیصد اور بی کیٹگری کے لیے 7 فیصد ریزرویشن کا انتظام تھا۔ بنچ نے کہا کہ ریزرویشن میں 10 فیصد کا اضافہ 2010 کے بعد ذاتوں کو شامل کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ انتخابی فوائد کے لیے مسلم کمیونٹی کے ذاتوں کو او بی سی کے طور پر تسلیم کرنا انہیں متعلقہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا جو انہیں دیگر حقوق سے محروم کر سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس لیے اس طرح کا ریزرویشن جمہوریت اور آئین کی بھی توہین ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔