تلنگانہ حکومت نے پیش کیا اپنا پہلا مکمل بجٹ، محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے فنڈ میں اضافہ

ریاستی حکومت نے محکمہ اقلیتی بہبود کے لیے 3,003 کروڑ روپے کا فنڈ مختص کیا ہے۔ اس سے قبل بی آر ایس حکومت نے 2023-24 کے لیے محکمہ اقلیتی بہبود کو 2200 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>وزیر خزانہ ملّو بھٹی وکرمارک / ویڈیو گریب</p></div>

وزیر خزانہ ملّو بھٹی وکرمارک / ویڈیو گریب

user

قومی آوازبیورو

تلنگانہ کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ ملّو بھٹی وکرمارک نے اسمبلی میں 2024-25 کے لیے 2.91 لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں کانگریس حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا مکمل بجٹ ہے۔ اپنے اس پہلے بجٹ میں کانگریس حکومت نے اہم تبدیلیاں کی ہیں اور ریاست کے محکمہ اقلیتی بہبود کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے محکمہ اقلیتی بہبود کے لیے 3,003 کروڑ روپے کا فنڈ مختص کیا ہے۔ اس سے قبل بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) حکومت نے 2023-2024 کے لیے محکمہ اقلیتی بہبود کو 2200 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔

وزیر خزانہ بھٹی وکرمارک نے درج فہرست ذات (ایس سی) ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔ گزشتہ سال اس محکمہ کا بجٹ 21,072 کروڑ روپے تھا جو اب گھٹ کر 7,638 کروڑ روپے رہ گیا ہے۔ اسی طرح قبائلی بہبود کے محکمے کے لیے مختص رقم کو 4,365 کروڑ روپے سے گھٹا کر 3,969 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ ریاست کی کانگریس حکومت نے اقلیتوں کی فلاح وبہبود  کی بجٹ کے اندر بہت سی امور کے لیے یہ رقم مختص کی ہے۔ تلنگانہ کی کل آبادی کے تقریباً 14 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لیے مختص کیے گئے فنڈ میں رمضان المبارک کے لیے 33 کروڑ روپے اور عازمین حج کے لیے 4.43 کروڑ روپے بھی شامل ہیں۔


نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ ملو بھٹی وکرمارک نے کہا کہ ریاستی حکومت نے زراعت کے لیے 72,659 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ بجٹ میں محکمہ تعلیم کے لیے 21,292 کروڑ روپے اور آبپاشی کے لیے 22,301 کروڑ روپے بھی رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس حکومت نے اپنے قیام کے بعد سے ’غیر ذمہ سابقہ ​​حکومت کے ذریعہ دیے گئے قرضوں کی ادائیگی‘ پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ہم نے 35,118 کروڑ کا قرض لیا ہے جب کہ 42,892 کروڑ کا قرض واپس کر دیا ہے۔

وزیر خزانہ کی تقریر کی جھلکیاں

  • اپنے قیام کے 10 سال بعد بھی تلنگانہ نے توقع کے مطابق ترقی نہیں کی ہے۔ تلنگانہ کو ’ بنگارو تلنگانہ‘ بنانے کا وعدہ کرنے والے سابقہ حکومتیں ہر محاذوں پر بری طرح ناکام رہیں۔

  • ریاست کی تشکیل کے وقت 75,577 کروڑ روپے کا قرض 10 سالوں میں تیزی سے بڑھ کر 6,71,751 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔

  • ریاست کا انتظام پرائیویٹ جاگیردار کی جاگیر کی طرح کیا جاتا تھا، تقسیم کے وقت ایک خوشحال ریاست قرضوں کے بھاری بوجھ کی وجہ سے دگرگوں حالت میں تھی۔

  • نئی بننے والی کانگریس حکومت کے لیے مالی بحران میں پھنسی ریاست کو سنبھالنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ ہم نے فضول خرچی پر قابو پا کر اور مالی نظم و ضبط کے جذبے کے ساتھ اپنی انتظامیہ کا آغاز کیا۔ ہم نے نظام کو ہموار کرنے اور مارچ 2024 سے 3.69 لاکھ سرکاری ملازمین اور 2.87 لاکھ پنشنرز کو وقت پر تنخواہ اور پنشن ادا کرنے کی کوشش کی۔

  • ہماری حکومت نے دسمبر 2023 میں ایک وائٹ پیپر جاری کیا، جس کے مطابق نئی حکومت کے قیام کی تاریخ تک ریاست پر 6,71,757 کروڑ روپے کا قرض تھا۔ ہماری حکومت کے قیام کے بعد سے ہم نے 35,118 کروڑ روپے کا قرض لیا ہے جب کہ ہم نے 42,892 کروڑ روپے کا قرض ادا کیا ہے۔

  • 2023-24 میں تلنگانہ کی فی کس آمدنی 3,47,229 روپے ہے جبکہ ملک کی فی کس آمدنی 1,83,236 روپے ہے۔ تلنگانہ کی فی کس آمدنی قومی فی کس آمدنی سے 1,64,063 روپے زیادہ ہے۔

  • ہم نے 28 دسمبر 2023 سے 6 جنوری 2024 تک تمام گاؤں اور وارڈوں میں میٹنگیں کیں۔ ہمیں اس مدت کے دوران عوام سے 1.09 کروڑ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

  • پچھلی حکومت نے ’ریتھو بندھو‘ پر 80,440 کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ یہ اسکیم صرف کسانوں کے لیے تھی۔ یہ رقم بہت سے نااہل لوگوں کو منتقل کی گئی۔ جس کے نتیجے میں عوام کا قیمتی پیسہ ضائع ہوا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔