بی جے پی کو تمل ناڈو میں لگنے والا ہے ’بڑا جھٹکا‘، اے آئی اے ڈی ایم کے ہوا ناراض!
تمل ناڈو میں برسراقتدار اے آئی اے ڈی ایم نے پیر کے روز کہا کہ اسے قومی پارٹی کی شکل میں ایسے ساتھی کی ضرورت نہیں ہے جو تاناشاہی رویہ اختیار کرنے والی ہو۔
لگتا ہے بی جے پی کی معاون پارٹیوں کو اس کا ضدی رویہ پسند نہیں آ رہا ہے۔ ایک ایک کر کئی پارٹیاں این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کر چکی ہیں اور کچھ پارٹیوں نے الگ ہونے کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ بہار اسمبلی انتخاب میں جہاں لوک جن شکتی پارٹی نے این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ کر الگ انتخاب لڑا، وہیں پنجاب میں اکالی دل سے سالوں پرانا ان کا رشتہ ختم ہو گیا۔ ہریانہ میں بھی نئے زرعی قوانین کے ایشو پر جے جے پی (جن نایک جنتا پارٹی) اور بی جے پی میں رسہ کشی کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ مہاراشٹر میں تو بی جے پی کی سب سے پرانی ساتھی شیوسینا نے بہت پہلے ہی این ڈی اے سے الگ ہو کر مہاوکاس اگھاڑی حکومت کا حصہ بن گئی ہے۔ اب ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ اے آئی اے ڈی ایم نے بھی بی جے پی کو ایک سخت پیغام دیا ہے۔
’جن ستّا‘ میں شائع ایک خبر کے مطابق تمل ناڈو میں برسراقتدار پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے پیر کے روز کہا کہ اسے قومی پارٹی کی شکل میں ایسے ساتھی کی ضرورت نہیں ہے جو تاناشاہی کرنے جا رہی ہو۔ پارٹی نے کہا کہ کسی ایسی حالت میں وہ اتحاد کی دوسری اننگ میں شامل نہیں ہوں گے۔ دراصل رسہ کشی کی شروعات موجودہ وزیر اعلیٰ پلانیسامی کو ایک بار پھر سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار بنائے جانے کو لے کر ہوئی۔ بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے پلانیسامی کے بطور وزیر اعلیٰ امیدوار ہونے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد پارٹی نے اتوار کو پھر دہرایا کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں بھی وزیر اعلیٰ کے. پلانیسامی اے آئی اے ڈی ایم کے کا چہرہ ہوں گے۔
رکن پارلیمنٹ اور تمل ناڈو انتخاب میں ڈپٹی کو آرڈنیٹر کے پی منوسامی نے اتوار کے روز کہا کہ انتخاب میں اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد کی قیادت کرے گی۔ انھوں نے واضح لفظوں میں یہ بھی کہا کہ ’’اگر کوئی قومی پارٹی تاناشاہی چلانا چاہتی ہے تو ان کا اتحاد میں حصہ نہ بننے کے لیے استقبال ہے۔‘‘
واضح رہے کہ تمل ناڈو میں 2021 کے اپریل-مئی میں انتخاب ہونے ہیں۔ بی جے پی تمل ناڈو میں اپنا قد بڑا کرنے میں مصروف ہے۔ فی الحال تمل ناڈو میں بی جے پی نے کوئی انتخاب نہیں جیتا ہے۔ وہاں اس کا کوئی رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ نہیں ہے۔ اِدھر گزشتہ 9 سالوں سے اقتدار میں رہنے کے سبب برسراقتدار اے آئی اے ڈی ایم کے کو اقتدار مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ سال پارٹی نے لوک سبھا انتخاب بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے لڑا تھا۔
بہر حال، اے آئی اے ڈی ایم کے نے واضح کیا کہ بی جے پی کو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں جیت درج کرنے پر زعفرانی پارٹی کو حکومت میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی نے کہا کہ بی جے پی کی تمل ناڈو کی دراوڑ زمین میں نہ کوئی پہچان ہے اور نہ آگے کوئی پہچان بنا سکتی ہے۔ پارٹی نے اپنی پہلی انتخابی ریلی میں اشارہ دیا کہ بی جے پی کو انتخاب میں وزیر اعلیٰ عہدہ کے لیے پلانیسامی کی امیدواری کی حمایت کرنے اور حکومت میں اس (بی جے پی) غیر شراکت داری جیسی شرطوں کو ماننا چاہیے اور اگر نہیں تو وہ 2021 کے اپنے انتخابی متبادل پر دوبارہ غور کر لے۔
کے پی منوسامی کا کہنا ہے کہ کچھ قومی پارٹی ’موقع پرست، دھوکہ باز اور بھیڑ‘ دراوڑ تنظیموں کو قصوروار ٹھہرا رہی ہیں کہ انھوں نے ریاست کی 50 سال کی حکومت میں تمل ناڈو کو برباد کر دیا۔ منوسامی نے حیرانی ظاہر کی کہ انّادرمک حکومت کے خلاف نااہلی کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب مرکز نے تمل ناڈو کو کئی شعبوں میں ان کی شاندار کارکردگی کے لیے اتنے ایوارڈ دیے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Dec 2020, 7:11 PM