ہندوستان کی جیلوں میں بند غیر ملکی جماعتیوں کی جیل سے رہائی کا عمل جاری
وکیل جاں نثار کا کہنا ہے کہ اصل معاملہ حکومت کی منشا پر منحصر ہے، وہ ایک حد تک ہی مداخلت کر سکتی ہے، ہم پوری شدت سے مصروف ہیں۔ اب جلد ہی تبلیغیوں کو خوشخبری ملنے جارہی ہے۔
ملک بھر سے 916 بیرون ملک سے ہندوستان آنے والے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو چن چن کر پکڑ لیا گیا اور انہیں مجرم کی طرح پیش کیا گیا۔ ان میں سے 300 افراد صرف اور صرف اتر پردیش سے گرفتار کیے گئے اور 57 میرے شہر کے تھانوں کی حوالات میں بند ہیں۔ میں ایک وکیل ہوں، لوگ میرے پیشہ ور ہونے اور فیس وصول کرنے کی باتیں کر تے ہیں۔ مگر میں نے طے کیا ہے کہ میں بیرون ملک جماعتیوں سے کوئی محنتانہ وصول نہیں کروں گا، یہ ہمارے مہمان ہیں۔ بطور مسلمان ہی نہیں بطور انسان بھی ان کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ حکومت میں موجود لوگوں کو اتنا بے حس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہنا ہے سہارنپور کے وکیل جانثار احمد کا وہ یہاں کی جیل میں بند بیرون ملک جماعتیوں کو رہا کرانے کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں۔
حال ہی میں کرغستان، نیپال، سوڈان، ٹھائی لینڈ اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے ان کے شہریوں کا موقف عدالت میں رکھنے لئے انہیں مقرر کیا ہے۔ 56 سالہ جانثار ان مقدمات کے حوالہ سے جتنے فکر مند نظر آتے ہیں، اتنا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں رہے۔ گزشتہ دنوں ان کے گھر کرغستان کے سفیر پہنچے، پھر دونوں نے جیل میں قید جماعتیوں سے ملاقات کی۔ سہارنپور میں 57 بیرون ملک جماعتی قید ہیں، ان میں سے 21 کا تعلق کرغستان سے ہے۔
ان ممالک کے سفیر لگاتار جیل میں بند اپنے اپنے شہریوں سے ملاقات کرنے آ رہے ہیں۔ منگل کے روز تھائی لینڈ سفارت خانہ کے افسران سہارنپور پہنچے۔ اس سے قبل کرغستان کے سفیر بھی یہاں پہنچے تھے انہوں نے کہا ’’ہر کوئی ملک اپنے شہریوں کے لئے فکر مند ہوتا ہے۔ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ ہم اپنا قانونی موقف رکھ رہے ہیں اور حکومت ہند سے بھی بات کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارے لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ کرغستان کی طرح ملائشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کی حکومتوں نے بھی یہ نوٹس کیا ہے اور ان ممالک کے سفارت کار بھی جیل میں بند بیرون ملک کے جماعتیوں کی خیر خبر لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اتر پردیش کے میرٹھ زون میں 179 بیرون ملک جماعتی قید ہیں۔ جیل میں انہیں 45 دن گزر چکے ہیں۔ سہارن پور جیل میں قید جماعتیوں سے ملاقات کر کے لوٹے مقامی رکن پارلیمنٹ کے ایک قریبی بتاتے ہیں، ’’سب خوش ہیں، اللہ اللہ کر رہے ہیں، قیدی عزت سے پیش آ رہے ہیں۔ وہ جماعتیوں کو اللہ کا مہمان کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب اللہ کی رضا کے لئے ہو رہا ہے، ہمارا امتحان چل رہا ہے۔ بیرون ملک جماعت کے تمام ساتھیوں کو انگریزی بھی نہیں آتی، صرف تین لوگ انگریزی بول سکتے ہیں۔ مگر ان کی ایک بات سکون دیتی ہے کہ جیل میں بند قیدی اور ملازمین ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جا رہا ہے۔
اتر پردیش کا کوئی بھی افسر اس معاملہ پر بولنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ معاملہ عدالت میں ہے۔ دبی زبان میں وہ اتنا ضرور کہتے ہیں کہ ان کو جیل میں رکھنے کا فیصلہ اعلیٰ سطح پر لیا گیا ہے۔ اتر پردیش میں سیاسی معاملات کے ماہر لکھنؤ رہائشی وحید صدیقی کہتے ہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ صرف وزیر اعلیٰ ہی لے سکتے ہیں مگر پورے ملک میں گرفتاری ہوئی ہے اس لئے وزارت داخلہ سے اس سلسلے میں بات ضرور کی گئی ہوگی۔
میڈیا میں تبلیغی جماعت مرکز کے خلاف پھیلائی گئی نفرت کے بعد اتر پردیش کے بہرائچ میں سب سے پہلے 17 بیرون ملک جماعتیوں کو جیل بھیجا گیا۔ اس کے بعد الہ آباد، کشی نگر، میرٹھ، سہارنپور، ہاپوڑ، شاملی، بلند شہر اور باغپت میں بیرون ملک جماعتیوں کو کوارنٹائن کرایا گیا اور پھر اس کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔ مقامی اخباروں نے اس دوران انتہائی قابل اعتراض زبان کا استعمال کیا اور لوگوں میں خوف پیدا کیا۔
ان میں کینیا، سوڈان، انڈونیشیا، ملائشیا، قزاکستان، تھائی لینڈ، سعودی عرب، کرغستان کے جماعتی شامل تھے۔ 30 مارچ کے بعد سرکاری عملہ کی دھر پکڑ شروع ہوئی اور 20 اپریل کے بعد انہیں جیل بھیجا جانے لگا تھا۔ اس دوران میرٹھ سے 29، بجنور سے 16، ہاپوڑ سے 9، شاملی سے 22، بلند شہر سے 16، باغپت سے 28 اور سہارنپور سے 57 جماعتی صرف وبائی قانون، سیاحتی ویزا پر مذہب کی تشہیر کرنا وغیرہ معاملوں میں گرفتار کر لئے گئے اور ان کے پاسپورٹ ضبط کر لئے گئے۔
الہ آباد سے لے کر سہارنپور کی شہر کوتوالی کے تفتیش کار داروغہ تک کی تمام تحقیقات میں ایک ہی زبان لکھی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مانیٹرنگ کا مرکز ایک ہی ہے۔ 21 اپریل کو ہی اتر پردیش کے وزیر صحت سدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ ان تمام جماعتیوں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ 45 دنوں سے زیادہ مدت تک جماعتیوں کو جیل میں رکھے جانے پر جانثار ایڈوکیٹ کہتےہیں، ’’میں نے اپنی زندگی میں قتل کے معاملوں میں ایک مہینے سے کم وقت میں ضمانت ہوتے ہوئے متعدد بار دیکھا ہے۔ صرف سیاسی معاملوں میں ہی غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے۔ ان میں حکومت جو چاہتی ہے وہی ہوتا ہے۔
ایڈوکیٹ جانثار کے مطابق انہوں نے وکالت نامہ پر دستخط بھی کر دیئے ہیں۔ این او سی بھی مل گئی ہے۔ اب یہ جماعتی زیادہ دنوں تک جیل میں نہیں رہیں گے۔ تاہم، ضمانت کے بعد ان جماعتیوں کی وطن واپسی آسان ہو سکے گی، یہ بات مکمل طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ ہندوستان میں ان کے خلاف سب سے سنگین مقدمہ سیاحتی ویزا پر آمد کے بعد مذہب کو فروغ دینے کا بنایا گیا ہے۔
میرٹھ کے مذہبی امور کے ماہر عطاء الرحمٰن خان کا کہنا ہے کہ "اسے مذہبی پروپیگنڈہ کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جماعتی کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے پاس اپنا مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے نہیں جاتے بلکہ اپنے مذہب کے مطابق نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے کی اپنے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں، یہ عیسائی مشنریز کی طرح کام نہیں کرتے۔‘‘
اس وقت، تمام ممالک کے سفارت خانے ان جماعتیوں کو آزاد کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ وہ عدالت کے علاوہ حکومت کے سامنے بھی اپنا موقف پیش کر رہے ہیں، ان کی رہائی کے امکانات کو ہریانہ کی نوح عدالت کے فیصلے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ہریانہ میں 107 غیر ملکی جماعتیوں کے خلاف بھی بنایا گیا تھا، جہاں کی اسیما منڈل نے جماعتیوں کے وکیل کی حیثیت سے مقدمہ لڑا۔ نوح کی عدالت نے ان پر وبائی قانون کے تحت ایک ایک ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا اور ضمانت منظور کر لی۔ نیز ہریانہ حکومت کو یہ حکم دیا گیا کہ تمام جماعتیوں کو بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔ مقامی رکن اسمبلی آفتاب احمد نے فوراً ہی یہ جرمانہ ادا کردیا۔
وکیل جانثار کا کہنا ہے کہ اصل معاملہ حکومت کی منشا پر منحصر ہے، وہ ایک حد تک ہی مداخلت کر سکتی ہے، ہم پوری شدت سے مصروف ہیں۔ اب جلد ہی تبلیغیوں کو خوشخبری ملنے جارہی ہے۔ بجنور جیل سپرنٹنڈنٹ کہتے ہیں ’’بیرون ملک جماعتی کافی تعاون کرتے ہیں، ہمارے یہاں 16 افراد موجود ہیں۔ ان سبھی کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔ انہیں ملک بھر کی عارضی جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ ان کے سفارت خانے سے آنے والے افسران یہاں کے انتظام و انصرام کو دیکھ کر مطمئن نظر آئے۔ ہم جیل کو ہر روز سینیٹائز کر رہے ہیں، ہم سے جماعتیوں کو اور جماعتیوں کو ہم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔