’ہمیں پتہ ہے کہ لکشمن ریکھا کہاں ہے، لیکن اس فیصلے کی جانچ تو کرنی ہی ہوگی‘، نوٹ بندی پر سپریم کورٹ کا تبصرہ
نوٹ بندی کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے کہا کہ اسے پتہ ہے کہ مرکزی حکومت کے پالیسی پر مبنی فیصلوں میں لکشمن ریکھا کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے آج نوٹ بندی پر سوالیہ نشان لگانے والی عرضیوں پر آج ہوئی سماعت کے دوران کچھ تلخ تبصرے کیے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسے معلوم ہے کہ مرکزی حکومت کے پالیسی پر مبنی فیصلوں کے عدالتی تجزیہ کی ’لکشمن ریکھا‘ کیا ہے، لیکن پھر بھی 2016 میں مرکزی حکومت کے ذریعہ کی گئی نوٹ بندی کے فیصلے کی جانچ کرنی ہوگی تاکہ طے ہو سکے کہ کیا یہ ایشو محض ایک اکیڈمک ایکسرسائز بن گیا ہے۔
جسٹس اے نظیر کی قیادت والی سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے نوٹ بندی معاملے پر بدھ کے روز سماعت کے دوران کہا کہ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا جواب دے۔ عدالت نے یہ بات تب کہی ہے جب سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے کہا کہ جب تک نوٹ بندی پر بنے قانون کو ایک منظم طریقے سے چیلنج نہیں دیا جاتا، تب تک یہ ایشو اکیڈمک ہی رہے گا۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ یہ طے کرنے کے لیے کہ یہ فیصلہ اکیڈمک ہے یا بے کار ہے، عدالت کو معاملے کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ دونوں پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے کہا کہ ’’اس ایشو کا جواب دینے کے لیے ہمیں کیس سننا ہوگا اور جواب دینا ہوگا کہ یہ اکیڈمک ہے یا نہیں ہے، یا پھر عدالتی تجزیہ کے دائرے سے باہر ہے۔ اس معاملے کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ حکومت کی پالیسی اور اس کی سمجھداری کا ایشو ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کی اس بنچ میں جسٹس بی آر گوئی، جسٹس اے ایس بوپنا، جسٹس وی راماسبرامنیم اور جسٹس بی وی ناگارتھ بھی شامل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ’’ہمیں ہمیشہ پتہ ہوتا ہے کہ لکشمن ریکھا کہاں ہے، لیکن جس طریقے سے اسے کیا گیا ہے، اس کی جانچ کرنی ہوگی۔ ہم دونوں فریقین کو سنیں گے تبھی طے کریں گے۔‘‘
مرکز کی طرف سے پیش سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلیل دی تھی کہ اکادمی ایشوز پر عدالت کا وقت تباہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن مہتا کے اس بیان پر سینئر وکیل شیام دیوان نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ تشار مہتا کے ذریعہ بے کار لفظ کے استعمال پر حیران ہیں کیونکہ اس سے پہلے ہی بنچ نے کہا تھا کہ یہ ایشو آئینی بنچ کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔ شیام دیوان اس معاملے میں عرضی دہندہ وویک نارائن شرما کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔ ایک دیگر عرضی دہندہ کی طرف سے پیش سینئر وکیل پی چدمبرم نے کہا کہ ایشو اکیڈمک نہیں ہے اور اس پر سپریم کورٹ کو فیصلہ لینا چاہیے۔ چدمبرم نے یہ بھی کہا کہ اس طرح سے نوٹ بندی کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے ایک الگ قانون بننا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔