وقف ترمیمی بل پر جے پی سی کے دوسرے اجلاس میں بھی ہنگامہ، کیجریوال، ’افغانستان‘ سے لے کر ’اکھنڈ بھارت‘ تک کا ذکر
بل کے فوائد شمار کرتے ہوئے افسر کے منہ سے ’آغاخانی‘ برادری کی بجائے لفظ ’افغانی‘ نکل گیا، جس پر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ بل ہندوستان کے لیے لایا جا رہا ہے یا اکھنڈ بھارت کے لیے!
نئی دہلی: وقف (ترمیمی) بل پر جمعہ کو منعقدہ جے پی سی کا دوسرا اجلاس بھی کافی ہنگامہ خیز رہا اور بی جے پی اور اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ اجلاس کے دوران دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو جیل میں کر افغانستان اور ’اکھنڈ بھارت‘ تک کا ذکر کیا گیا۔ حکومتی رویے سے ناراض اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ اجلاس سے کچھ دیر کے لیے واک آؤٹ بھی کر گئے۔ وہیں، مسلم تنظیموں نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ جے پی سی کا آئندہ اجلاس اگلے ماہ 5 اور 6 ستمبر کو طلب کیا گیا ہے۔
آئی اے این ایس نے ذرائع کے حوالہ سے اطلاع دی کہ اجلاس کے دوران بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے جہاں حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ پر بے قابو ہو کر بارہا ٹوکنے اور بولنے نہیں دینے کا الزام عائد کیا، جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے بی جے پی پر منمانی کرنے، جمہوری عمل کی خلاف ورزی کرنے اور اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ پر ذاتی تبصرے کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
اجلاس کے دوران بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ دلیپ سائکیا اور عآپ کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کے درمیان گرما گرم بحث بھی ہوئی۔ دہلی کی مثال دیتے ہوئے سنجے سنگھ نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی نہ تو آئین کے معنی سمجھتی ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرتی ہے، بلکہ وہ صرف اقتدار پر قبضہ کرنے میں مصروف ہے۔ سائکیا اور سنگھ کے درمیان دہلی کی صورتحال، عآپ لیڈروں کی گرفتاری، لیفٹیننٹ گورنر کے کام اور بل میں کلکٹر کو دیئے گئے اختیارات پر طویل بحث ہوئی۔ اجلاس کے دوران دیگر ارکان پارلیمنٹ کے درمیان بھی وقف کے حقوق اور کلکٹر کے اختیارات پر تیکھی بحث ہوئی۔
اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے جے پی سی صدر جگدمبیکا پال کو بل کے خلاف احتجاج میں ایک اور تحریری نوٹ دیا۔ اجلاس کے دروان اسد الدین اویسی اور ابھیجیت گنگوپادھیائے کے درمیان بھی گرما گرم بحث ہوئی۔ اویسی نے گنگوپادھیائے کے ذاتی ریمارکس کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کیا۔
اجلاس میں ایک وقت ایسا آیا جب حکومتی رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں اجلاس سے ہی واک آؤٹ کر گئیں۔ دراصل، مسلم تنظیم کی جانب سے پیش ہونے والے ایک وکیل نے اس سے قبل جے پی سی میں بل کے حوالے سے اپنا موقف پیش کیا تھا لیکن جب انہوں نے دوسری بار بولنا شروع کیا تو انہیں یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ وہ دوبارہ نہیں بول سکتے۔ اس کے خلاف اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کھڑے ہو گئے۔
اسد الدین اویسی، اے راجا، عمران مسعود، محمد عبداللہ اور اروند ساونت سمیت حزب اختلاف کے بہت سے اراکین پارلیمنٹ نے اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا، حالانکہ وہ تھوڑی دیر بعد اجلاس میں واپس آ گئے۔
اجلاس میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا، جس پر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ طنز کرتے ہوئے نظر آئے۔ جب ایک افسر اس بل کے فوائد شمار کر رہے تھے تو ان کے منہ سے غلطی سے ’آغاخانی‘ برادری کی بجائے لفظ ’افغانی‘ نکل گیا۔ وہ کہنا چاہتے تھے کہ اس بل سے مسلم سماج کے دیگر پسماندہ طبقات جیسے بوہرہ اور آغاخانی کو فائدہ پہنچے گا لیکن غلطی سے ان کے منہ سے یہ نکل گیا کہ اس بل سے افغانیوں کو فائدہ پہنچے گا، جس پر اپوزیشن ارکان نے طنز کرتے ہوئے سوال کیا، یہ بل ہندوستان کے لیے ہے یا اکھنڈ بھارت کے لیے؟
مسلم تنظیم کی جانب سے جے پی سی کی میٹنگ میں بلائی گئی آل انڈیا سنی جمعیت علماء نے بل کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ وقف قوانین میں ترمیم کو قبول نہیں کرتے۔ وقف مسلمانوں کا معاملہ ہے اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اسی دوران انڈین مسلم فار سول رائٹس تنظیم نے بھی جے پی سی کے سامنے بل میں ترمیم کی مخالفت کی۔ تنظیم کے صدر سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے اس بل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔