آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا عیسائیوں اور مسلمانوں پر شدید حملہ، ہندو مذہب کو بتایا سب سے بہتر!

بھاگوت کہتے ہیں ’’جس کو اچھا بننا ہے وہ ہماری پیروی کرے گا، نہیں تو ہم ان کا کچھ نہیں کریں گے، لیکن وہ ہمارا کچھ نہ کر سکیں اس کی فکر تو کرنی پڑے گی۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>موہن بھاگوت، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

موہن بھاگوت، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے ’پانچ جنیہ‘ اور ’آرگنائزر‘ کو ایک طویل انٹرویو دیا ہے جو سرخیوں میں ہے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے آر ایس ایس، ہندوتوا اور اسلام و عیسائی مذاہب کو لے کر اپنے نظریات کھل کر رکھے ہیں۔ طویل ترین انٹرویو میں کچھ مقامات پر موہن بھاگوت نے مسلمانوں اور عیسائیوں پر شدید حملہ بھی کیا ہے اور ہندو مذہب کو سب سے بہتر قرار دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بھاگوت ہندوؤں کا موازنہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہندو سماج اگر خود کو جانے گا تو اپنا حل کیا ہے اسے سمجھ جائے گا۔ کٹر عیسائی کہتے ہیں کہ ساری دنیا کو عیسائی بنا دیں گے، اور جو نہیں بنیں گے ان کو ہمارے رحم و کرم پر رہنا پڑے گا، یا تو مرنا پڑے گا۔ کٹر اسلام والے، جو ابراہیمی نظریہ رکھتے ہیں، ایشور کو ماننے والے اور نہیں ماننے والے لوگ ہیں، کمیونزم کیپٹلزم سمیت، سب ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں کہ سب کو ہماری راہ اختیار کرنی ہوگی، کیونکہ ہم ہی صحیح ہیں، ہمارے رحم و کرم پر رہو، یا مت رہو۔ ہم تباہ کر دیں گے۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں ’’ہندو کا عالمی نظریہ کیا ہے؟ کیا ہندو کبھی ایسا کہتا ہے کہ سب کو ہندو (مذہب) ماننا پڑے گا؟ ہمارا ایسا نظریہ ہی نہیں ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کے سامنے ایک مثال پیش کریں گے۔ سب لوگوں سے بات کریں گے۔ جس کو اچھا بننا ہے، وہ ہماری پیروی کرے گا۔ نہیں تو، ہم ان کا کچھ نہیں کریں گے۔ لیکن وہ ہمارا کچھ نہ کر سکیں، اس کی فکر تو کرنی پڑے گی۔‘‘ ساتھ ہی بھاگوت یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ان سب لڑائیوں میں اب ہم مضبوط ہو گئے ہیں۔ اب وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘

آر ایس ایس چیف نے موجودہ حالات میں ہندو طبقہ کو بہت مضبوط بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہماری سیاسی آزادی کو چھیڑنے کی طاقت اب کسی میں نہیں ہے۔ اس ملک میں ہندو رہے گا، ہندو (کہیں) جائے گا نہیں، یہ اب یقینی ہو گیا ہے۔ ہندو اب بیدار ہو گیا ہے۔ اس کا استعمال کر کے ہمیں اندر کی لڑائی میں فتح حاصل کرنی ہے اور ہمارے پاس جو حل ہے، وہ پیش کرنا ہے۔ آج ہم طاقت کی حالت میں ہیں تو ہمیں وہ بات کرنی پڑے گی، کیونکہ اگر ابھی نہیں، لیکن 50 سال بعد ہمیں یہ کرنا پڑے گا۔‘‘


انٹرویو میں ایک جگہ بھاگوت یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ہندو ہماری شناخت ہے، قومیت ہے، ہندو ہماری روش ہے۔ سب کو اپنا ماننے کی، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روش۔ صرف میرا صحیح، تمھارا غلط، ایسا نہیں ہے۔ تمھاری جگہ تمھارا ٹھیک، میری جگہ میرا ٹھیک۔ جھگڑا کیوں کریں، مل کر چلیں۔ یہی ہندوتوا ہے۔ اس کے ماننے والے لوگوں کی تعداد بنی رہتی ہے تو ہندوستان ایک رہتا ہے۔‘‘

بھاگوت ہندوؤں کے ایک ہزار سال سے جنگ میں رہنے کا تذکرہ بھی انٹرویو کے دوران کرتے ہیں اور اس دشمن کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جس سے یہ لڑائی جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہندو سماج تقریباً ایک ہزار سال سے ایک جنگ میں ہے... غیر ملکی لوگ، غیر ملکی اثرات اور غیر ملکی سازش، ان سے ایک جنگ جاری ہے۔ اس سمت میں آر ایس ایس نے کام کیا ہے اور کچھ دیگر نے بھی کام کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں کہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہندو سماج بیدار ہوا ہے۔‘‘ وہ آگے کہتے ہیں کہ ’’ہندو سماج میں اب بھی مکمل بیداری پیدا نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح لڑائی جاری ہے، لیکن ہم کیا ہیں؟ لڑائی ہے تو دشمن کو سوچنا پڑتی ہے، دشمن کو سمجھنا پڑتا ہے۔ دشمن کو دھیان میں رکھنا پڑتا ہے۔ جیسے ہم کیا ہیں، ہم کو کب کیا کرنا ہے؟‘‘


مغلوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ ’’آپ دیکھیں گے کہ مغلوں کے حملہ میں آخری تجربہ ہوا شیواجی مہاراج کا۔ اس کے بعد اس کے تجربات چلتے رہے۔ شیواجی مہاراج کی پالیسی کیسی تھی؟ وہ دشمن کے بارے میں جانتے تھے، لیکن اپنے بارے میں بھی جانتے تھے کہ کب لڑنا ہے اور کب نہیں لڑنا۔‘‘ جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے بھاگوت یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’فطری ہے کہ لڑنا ہے تو پرعزم ہونا ہی پڑتا ہے۔ حالانکہ کہا گیا ہے کہ اپنی خواہشات کو، میں اور میرے والے جذبات کو چھوڑ کر اپنے لالچ سے آزاد ہو کر جنگ کرو، لیکن سب لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن لوگوں نے اس کے بارے میں سماج کو ہمارے ذریعہ بیدار کیا۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں ’’بیداری کا عمل، جس دن پہلا حملہ آور سکندر ہندوستان آیا، تب سے جاری ہے۔ چانکیہ کے بعد سے اب تک کی روایت میں مختلف لوگوں نے مزید ایک لڑائی کے تئیں ہندو سماج کو آگاہ کیا ہے۔ ابھی وہ بیدار نہیں ہوا ہے۔ وہ لڑائی باہر سے نہیں ہے، وہ لڑائی اندر سے ہے۔‘‘

’پانچ جنیہ‘ کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران موہن بھاگوت ایک وقت مذہب کے تحفظ کو لے کر فکر مند بھی نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تحفظ کو لے کر اب بھی جدوجہد جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہندو مذہب، ہندو ثقافت، ہندو سماج کے تحفظ کا سوال ہے، اس کی لڑائی چل رہی ہے۔ اب غیر ملکی نہیں ہیں، لیکن غیر ملکی اثرات ہیں، بیرون ممالک سے کی جانے والی سازشیں ہیں۔ اس لڑائی میں لوگوں میں کٹرپسندی آئے گی۔ نہیں ہونا چاہیے، پھر اشتعال انگیز بیانات آئیں گے۔ لیکن اسی وقت اندر کی کچھ ہماری باتیں ہیں۔‘‘


ایک سوال کے جواب میں وہ ’جئے شری رام‘ نعرہ کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’شری رام ہمارے وقار کی علامت ہیں۔ ان کا مندر بننا چاہیے۔ اس کی تحریک چلتی ہے۔ لوگ جئے شری رام کہتے ہیں۔ جئے شری رام کہنے سے جوش آتا ہے۔ شری رام نے ہر ذات اور طبقہ کے لوگوں کو جوڑا، لیکن ہمارے یہاں اب بھی کسی کے ڈولی چڑھنے پر کسی کو چابک کھانے پڑتے ہیں۔ اس کو بدلنا ہے یا نہیں؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔