تمل ناڈو اسمبلی میں ’ہندی‘ کے خلاف قرارداد پاس، بی جے پی اراکین اسمبلی نے کیا واک آؤٹ

تمل ناڈو اسمبلی میں ہندی تھوپنے کے خلاف قرارداد پاس ہونے کے بعد ریاست کے بی جے پی اراکین اسمبلی نے اسمبلی سے واک آؤٹ کر دیا۔

تمل ناڈو اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
تمل ناڈو اسمبلی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ریاستی اسمبلی میں ہندی کو تھوپے جانے کے خلاف ایک قرارداد پیش کیا جو بہ آسانی پاس بھی ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایوان مرکزی حکومت سے گزارش کرتی ہے کہ وہ اپنے سربراہ کے ذریعہ صدر جمہوریہ کو سونپی گئی راج بھاشا (قومی زبان) پر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں کی گئی سفارشات کو نافذ نہ کرے۔ یہ سفارشات تمل سمیت دیگر ریاستوں کی زبانوں کے خلاف ہیں اور ان زبانوں کو بولنے والے لوگوں کے مفادات کے خلاف بھی ہیں۔

تمل ناڈو اسمبلی میں جب ہندی تھوپنے کے خلاف قرارداد پاس ہوئی تو اس کے خلاف بی جے پی اراکین اسمبلی نے شدید ناراضگی ظاہر کی۔ سبھی بی جے پی اراکین اسمبلی اس عمل کے خلاف اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں پیش مختلف طریقوں سے ہندی تھوپنے کی کوششوں کو آگے نہیں بڑھایا جانا چاہیے۔ انھوں نے ساتھ ہی لکھا کہ ایسا کر کے ہندوستانی اتحاد کی قابل فخر شمع کو ہمیشہ کے لیے روشن رکھا جا سکتا ہے۔


واضح رہے کہ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجین نے بھی اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا تھا۔ انھوں نے اس میں کہا تھا کہ ہندوستان کی تعریف ’تنوع میں اتحاد‘ کے طور پر کی جاتی ہے، جو ثقافتی اور لسانی تنوع کو قبول کرتا ہے۔ انھوں نے ساتھ ہی لکھا کہ ایک زبان کو دوسروں کے اوپر فروغ دینا ہندوستان کی سالمیت کو تباہ کر دے گا۔ انھوں نے اس طرح کی کوششوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

سی پی آئی کیرالہ سے راجیہ سبھا رکن بنوئے وشوم نے بھی ہندی کو لے کر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پر اپنی ناراضگی کا اظہار گزشتہ دنوں کیا تھا۔ وزیر اعظم کو لکھے خط میں انھوں نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کا زبردست نقصان ہوگا۔ رپورٹ کا مرکزی اصول ’ہندی فار ہندوستان‘ ہے، جو ہندوستان کے تنوع کو سرے سے خارج کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہندی کی لازمیت سے غیر ہندی ریاستوں کے طلبا پر اثر پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔