اویسی دے رہے بنگال بی جے پی کو پرواز، مسلم ووٹروں میں سیندھ سے ممتا کو ہوگا نقصان!
اس مرتبہ مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں کا کردار بہت اہم ہونے والا ہے، کیونکہ 135 سیٹوں پر اقلیتی طبقہ ہار-جیت میں اہم کردار نبھاتے ہیں، اگر یہاں مسلم ووٹ تقسیم ہوئے تو فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔
مغربی بنگال میں اسمبلی انتخاب کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی ہیں۔ سبھی پارٹیاں بساط بچھانے میں مصروف ہیں اور اس بار کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اہم کردار نبھانے کے لیے تیار ہیں۔ کچھ پارٹیاں جو بنگال اسمبلی انتخاب میں پہلی بار اپنے امیدوار اتار رہی ہیں، ان میں سب سے اہم نام اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اویسی کی پارٹی مغربی بنگال انتخاب میں اثردار موجودگی بھلے ہی درج نہ کرے، لیکن ممتا بنرجی کے مسلم ووٹروں میں سیندھ ضرور لگا سکتی ہے جس کا فائدہ سیدھے طور پر بی جے پی کو ملے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ اس مرتبہ مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں کا کردار بہت اہم ہونے والا ہے، کیونکہ درجنوں سیٹوں پر اقلیتی طبقہ ہار اور جیت میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ ایسی سیٹوں پر بی جے پی کی شکست یقینی ہے، لیکن مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوئی تو بی جے پی کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ گزشتہ اتوار کو اویسی مغربی بنگال دورہ پر بھی گئے جس پر ترنمول کانگریس کا بیان آیا کہ ایسے لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن بی جے پی اویسی کے اس دورہ سے بہت خوش ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اویسی جتنی طاقت بنگال میں لگائیں گے بی جے پی کو اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔ گویا کہ اویسی کی کوششوں سے بی جے پی کو پرواز ملے گی۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ لاکٹ چٹرجی کا ایک بیان اویسی کے تعلق سے سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’اویسی اب ممتا کو شکست دے دیں گے اس لیے ممتا کی دھڑکنیں بڑھ گئی ہیں۔ قریشی، صدیقی اور خان سے نہیں بنے گی حکومت۔ اس بار بی جے پی 200 سیٹیں جیتے گی۔‘‘ یہاں قابل غور ہے کہ بی جے پی کافی دنوں سے 200 سیٹ جیتنے کا نعرہ دے رہی ہے، حالانکہ 292 سیٹوں والی مغربی بنگال اسمبلی میں 100 سیٹیں حاصل کرنا بھی سیاسی ماہرین بی جے پی کے لیے مشکل بتا رہے ہیں۔ 100 سیٹیں بھی تب حاصل ہوں گی جب اویسی مسلم ووٹروں میں بڑے پیمانے پر سیندھ لگانے میں کامیاب ہو جائیں۔
مغربی بنگال میں 28 فیصد مسلم آبادی ہے اور بی جے پی کسی بھی طرح چاہتی ہے کہ وہ ان ووٹوں کو منتشر کرے۔ ایسا اس لیے کیونکہ اگر ممتا بنرجی کو اس طبقہ نے ووٹ دیا تو بی جے پی کے لیے اسمبلی انتخاب ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی بنگال میں ہندوؤں کے ہر طبقہ کا ووٹ حاصل کرنے کے مقصد سے الگ الگ طبقات پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر رہی ہے اور ترنمول کانگریس کو توڑنے میں بھی مصروف ہے۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے تو اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’عرب میں تو شیخ ہوتے ہیں، بنگال میں ابھشیک ہی اب شیخ ہو گئے ہیں۔‘‘ انوراگ ٹھاکر یہاں پر جس ابھشیک کی بات کر رہے ہیں، وہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھشیک بنرجی ہیں۔ ابھشیک کے بہانے بی جے پی کا نشانہ ممتا بنرجی کے بھائی بھتیجہ واد پر ہے، تو دوسری طرف بی جے پی اس کو مسلمانوں کو خوش کرنے والی سیاست پر بھی ضرب کر رہی ہے۔
اگر مغربی بنگال میں مسلمانوں کے اثر والے اسمبلی سیٹوں کی بات کریں، تو یہاں 135 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹ 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ان 135 سیٹوں میں سے 90 سیٹیں ترنمول کانگریس کے حصے میں گئی تھیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر مسلم ووٹ ممتا، اویسی اور کانگریس-لیفٹ اتحاد میں تقسیم ہوتا ہے تو بی جے پی کو سیدھا فائدہ پہنچے گا۔ بی جے پی کچھ ایسا ہی چاہتی ہے اور ہندوتوا، حب الوطنی اور بنگالی وقار کے نام پر اپنا پرچم لہرانے کے لیے بے تاب ہے۔
مہاراشٹر اور بہار میں اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے اچھی کارکردگی پیش کر کے مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے لیے مشکلیں تو پیدا کر ہی دی ہیں، کچھ سیاسی ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اویسی کانگریس اور بایاں محاذ اتحاد کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس وقت مغربی بنگال کا سیاسی ماحول پوری طرح سے گرم ہو چکا ہے اور اتوار کے روز پھرپھرا شریف مسجد سے منسلک مشہور مذہبی رہنما عباس صدیقی سے اویسی کی ملاقات نے بی جے پی کے چہرے پر خوشی لا دی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پھرپھرا شریف مسجد کا اثر بنگال کے مسلمانوں پر کافی گہرا ہے، اور اگر وہ اثر ووٹوں میں تبدیل ہوا تو ممتا کے قلع میں بڑی سیندھ لگ سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔