اڈیشہ ٹرین حادثہ: لوگوں نے مردہ سمجھ کر مردہ گھر میں ڈال دیا، پھر باپ کی ’اُمید‘ نے بیٹے کو بخشی زندگی!

ہیلارام ملک نے اپنے 24 سالہ بیٹے بسوجیت کو ایک عارضی مردہ گھر سے زندہ نکالنے کے لیے 235 کلومیٹر کا سفر کیا، بسوجیت کو ٹرین حادثے میں مارے گئے لوگوں کی لاشوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آواز بیورو

اڈیشہ میں گزشتہ 2 جون کو پیش آئے خوفناک ٹرین حادثہ کی کئی دردناک اور حیران کرنے والی کہانیاں سامنے آ چکی ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ معاملہ سامنے آیا ہے جس میں ایک والد کے بھروسے اور اُمید نے بیٹے کو عارضی مردہ گھر سے نکال کر ایک نئی زندگی بخشی ہے۔

ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہوڑہ باشندہ ہیلارام ملک نے اپنے 24 سالہ بیٹے بسوجیت کو ایک عارضی مردہ گھر سے زندہ نکالنے کے لیے 235 کلومیٹر کا سفر کیا۔ بسوجیت کو ٹرین حادثے میں مارے گئے لوگوں کی لاشوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ بسوجیت کو بہاناگا ہائی اسکول کے مردہ گھر سے باہر نکالنے کے بعد ہیلارام بالاسور کے اسپتال پہنچے۔ اس کے بعد وہ اسے کولکاتا کے ایس ایس کے ایم اسپتال لے آئے۔ بسوجیت کو مختلف اعضا اور ہڈیوں میں کئی چوٹیں آئی ہیں اور اس کی یہاں ایس ایس کے ایم اسپتال کی ٹراما کیئر یونٹ میں اس کی دو سرجری ہوئی ہے۔


اس پورے واقعہ کے تعلق سے ہوڑہ میں جنرل اسٹور چلانے والے ہیلارام نے بتایا کہ ’’میں نے ٹی وی پر حادثہ کی خبر دیکھی اور پھر میں نے محسوس کیا کہ مجھے بسوجیت کو فون کر پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ ٹھیک ہے۔ اس نے شروع میں فون نہیں اٹھایا، لیکن دوبارہ جب فون کیا تو دوسری طرف سے دھیمی آواز سنائی دی۔ اس نے کہا کہ وہ زندہ ہے۔ وہ درد سے بے حال تھا۔‘‘ بسوجیت کے والد ہیلارام کا کہنا ہے کہ 2 جون کی ہی رات وہ اور ان کے بہنوئی دیپک داس ایمبولنس سے بالاسور روانہ ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہم بسوجیت کو تلاش نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ اس کے موبائل پر فون کرنے کا کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ ہم الگ الگ اسپتال گئے لیکن بسوجیت کہیں نہیں تھا۔ اس کے بعد ہم بہاناگا ہائی اسکول کے ایک عارضی مردہ گھر گئے۔ شروع میں ہمیں اندر گھسنے نہیں دیا گیا۔ اس درمیان کچھ لوگوں کے درمیان تنازعہ ہو گیا اور اس کے بعد ہنگامہ شروع ہو گیا۔ اچانک ہی میں نے ایک ہاتھ ہلتے دیکھا اور پتہ چلا کہ یہ تو میرے بیٹے کا ہی ہاتھ ہے۔ وہ زندہ تھا۔‘‘

والد ہیلارام نے بتایا کہ ’’بسوجیت کچھ بولنے کی حالت میں نہیں تھا۔ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر میں اپنے بیٹے کو بالاسور اسپتال لے گیا، جہاں اسے کچھ انجکشن دیے گئے۔ پھر کٹک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل بھیج دیا گیا۔ اس کے اعضا میں کئی فریکچر آئے تھے اور وہ کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ میں نے وہاں ایک بانڈ پر دستخط کیا اور بسوجیت کو پیر کی صبح ایس ایس کے ایم اسپتال کی ٹراما کیئر یونٹ میں لایا۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ لوگوں نے انھیں مردہ کیوں سمجھا، ایس ایس کے ایم اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ہو سکتا ہے بسوجیت ’سسپینڈیڈ انمیشن‘ میں چلا گیا ہو، جس سے لوگوں کو لگا کہ وہ مر چکا ہے۔


بہرحال، پیر کے روز وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بسوجیت اور ایس ایس کے ایم اسپتال میں علاج کرا رہے زخمیوں سے ملاقات کی۔ ہیلارام کہتے ہیں کہ ’’میں اپنے بیٹے کو زندہ دیکھ بہت خوش ہوں اور اوپر والے کا شکرگزار ہوں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ جب میں نے سنا کہ بسوجیت مر چکا ہے تو میرے دماغ میں کیا چلا رہا تھا۔ میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ اب نہیں رہا۔ اسی لیے میں لگاتار اس کی تلاش کرتا رہا۔‘‘

اس پورے واقعہ پر بسوجیت کا کہنا ہے کہ ’’لگتا ہے جیسے مجھے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ میں اس کا سہرا اپنے والد کو دیتا ہوں۔ وہ میرے لیے بھگوان ہیں اور ان کی وجہ سے مجھے یہ زندگی پھر سے واپس ملی ہے۔‘‘ بسوجیت نے اسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے کہا کہ ’’بابا میرے لیے سب کچھ ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔