ہندوستان میں صحافیوں کے استحصال کا آئینہ دکھانے والے ’ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس‘ کو مودی حکومت مانتی ہی نہیں!
مرکز کی مودی حکومت ’ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس‘ کو نہیں مانتی ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ انڈیکس ایک غیر سرکاری ادارہ جاری کرتا ہے جس میں شفافیت نہیں ہوتی۔
نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت مانتی ہی نہیں کہ ملک میں صحافیوں کا استحصال ہوتا ہے اور جس انڈیکس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی ملک میں صحافیوں کو لے کر حکومت کا کیا رویہ ہے، اسے مرکزی حکومت مانتی ہی نہیں۔ حکومت نے آج (پیر کے روز) پارلیمنٹ میں واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ رپورٹس وِداؤٹ بارڈرس نام کا جو ادارہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس جاری کرتا ہے، وہ اسے نہیں مانتی۔
راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ ’ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس‘ رپورٹرس وِداؤٹ بارڈرس نامی ایک غیر ملکی ادارہ کے ذریعہ جاری کیا جاتا ہے اور حکومت نہ تو اس کی رینکنگ اور نہ ہی اس کے نظریات کو مانتی ہے۔ حکومت اس ادارہ کے ذریعہ اخذ کیے گئے نتائج سے متفق نہیں ہے اور نہ ہی اس کی رینکنگ کو کوئی اہمیت دیتی ہے۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ اکھلیش پرساد سنگھ کے سوال کے جواب میں انوراگ ٹھاکر نے یہ باتیں کہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس انڈیکس کو نہ ماننے کے کئی اسباب ہیں، مثلاً جس بنیاد پر یہ ادارہ رینکنگ جاری کرتا ہے اس کا سیمپل سائز بہت چھوٹا ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس میں جمہوریت کے اہم عناصر کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے رینکنگ کے لیے وہ شفاف نہیں ہے اور اس پر سوالیہ نشان ہے۔
انوراگ ٹھاکر نے ایوان میں بتایا کہ جی-7 ممالک اور ہندوستان سمیت دیگر شراکت دار ممالک نے جون 2022 میں ہوئے جی-7 سمیلن میں ’رجیلینٹ ڈیموکریسیز اسٹیٹمنٹ‘ یعنی جمہوریت کے لچیلے پن پر جو بیان جاری کیا تھا، اس میں جمہوریت کے لچیلے پن کو مضبوط کرنے اور عالمی چیلنجز کے لیے یکساں، مجموعی اور مستقل حل کی سمت میں کام کرنے کے اپنے عزائم کو دہرایا تھا۔ صحافیوں کے تحفظ معاملے پر انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ مرکزی حکومت ملک کے سبھی شہریوں، جن میں صحافی بھی شامل ہیں، کی سیکورٹی کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اکتوبر 2017 میں سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کو ایک ایڈوائزری جاری کر سبھی میڈیا اہلکاروں کی سیکورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانے کی گزارش کی گئی تھی۔
شیوسینا رکن پارلیمنٹ انل دیسائی نے بھی اسی تعلق سے ایک سوال پوچھا۔ ان کا سوال تھا کہ آئین کے تحت ’فریڈم آف ایکسپریشن‘ یعنی اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی کیا گیا ہے اور اگر یہ ایک مکمل حق ہے تو کیا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اس کے استعمال یا غلط استعمال پر کوئی پابندی ہے۔ اس کے جواب میں انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ آئین کے شق 19(1) کے تحت شہریوں کو اظہارِ رائے کی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے، ساتھ ہی شق 19(2) کے تحت اس میں کچھ پابندیاں بھی ہیں۔
انوراگ ٹھاکر کا کہنا ہے کہ پریس کی آزادی کو بنائے رکھنے کی اپنی پالیسی کے تحت حکومت پریس کے کام میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) ایک آئینی خود مختار باڈی ہے جسے پریس کونسل ایکٹ 1978 کے تحت خاص طور سے پریس کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے اور ملک میں اخبارات و نیوز ایجنسیوں کے پیمانوں میں اصلاح کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی سی آئی پریس کی آزادی میں تخفیف، صحافیوں پر جسمانی حملے وغیرہ سے متعلق ’پریس کے ذریعہ‘ درج کی گئی شکایتوں پر غور کرتی ہے۔
انوراگ ٹھاکر نے مزید کہا کہ ’’ٹیلی ویژن کے لیے سبھی چینلوں کے کیبل ٹیلی ویژن نیٹورک (ریگولیٹری) ایکٹ 1995 کے تحت پروگرام کوڈ پر عمل کرنا ضروری ہے، جبکہ ڈیجیٹل نیوز پبلشرز کے لیے حکومت نے آئی ٹی (انٹرمیڈیٹ گائیڈلائنس اینڈ ڈیجیٹل میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ) ایکٹ 2021 کو نوٹیفائی کیا ہے جو کہ آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت، جو ڈیجیٹل نیوز پبلشر کے ذریعہ عمل کے لیے ضابطہ اخلاق فراہم کرتا ہے۔
یہاں یاد دلا دیں کہ حال ہی میں رام ناتھ گوینکا ایوارڈ تقریب کے دوران انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر اِن چیف نے کہا تھا کہ اس وقت ملک میں صحافیوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ انھوں نے صحافیوں کے ساتھ ہی کئی دیگر لوگوں کی اظہارِ رائے کی آزادی کی بات اٹھائی تھی۔ اس پروگرام میں مہمانِ خصوصی ملک کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ تھے اور مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور سابق وزیر قانون روی شنکر پرساد بھی دیگر لیڈروں و لوگوں کے ساتھ ناظرین کے درمیان موجود تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔