می ٹو: جنسی استحصال کے الزامات سے ملیالم فلم انڈسٹری میں افرا تفری، اب تک 17 معاملے ہوئے درج
جنسی استحصال کے الزامات کی کڑی میں نیا الزام فلم اداکارہ سونیا ملہار کا ہے، انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ 2013 میں ایک فلم کے سیٹ پر اداکار نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔
ملیالم فلم انڈسٹری ’مالی ووڈ‘ میں اس وقت ’می ٹو‘ تحریک نے زور پکڑ لیا ہے جس نے اس شعبہ میں ایک افرا تفری کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ مالی ووڈ سے جڑے پرانے جنسی استحصال کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں اور اب تک 17 معاملے درج بھی کیے جا چکے ہیں۔ اس ہنگامہ خیزی کے درمیان ملیالم مووی آرٹسٹ ایسو سی ایشن ’امّا‘ کو بھی تحلیل کر دی اگیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پولیس ان الزامات کو لے کر ملیالم فلم انڈسٹری کے کئی فلمی ستاروں اور فلمسازوں سے پوچھ تاچھ کر سکتی ہے۔
جنسی استحصال کے الزامات میں تازہ الزام فلم اداکارہ سونیا ملہار کا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ 2013 میں ایک فلم کے سیٹ پر اداکار نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ اداکارہ نے کیرالہ حکومت کے ذریعہ تشکیل خصوصی جانچ ٹیم کے سامنے اپنے شکایت درج کرائی ہے۔ مالی ووڈ میں جنسی استحصال کے الزامات کی جانچ کے لیے کیرالہ حکومت نے اس خصوصی ٹیم کی تشکیل کی ہے۔
سونیا ملہار سے قبل فلم اداکارہ مینو منیر نے بھی جنسی استحصال سے متعلق الزام عائد کیا تھا۔ مینو منیر کا دعویٰ ہے کہ اب انھیں دھمکی بھرے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ مینو نے سوشل میڈیا پر اس کی جانکاری دی ہے۔ خصوصی جانچ ٹیم مینو کے بیان بھی درج کر سکتی ہے۔
اس سے قبل ملیالم فلم اداکار صدیقی پر بھی جنسی استحصال کا الزام لگایا گیا۔ ایک فلم اداکارہ نے صدیقی پر 2016 میں جنسی استحصال کا الزام عائد کیا ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 376 اور 506 کے تحت کیس درج کیا ہے۔ کسی ہائی پروفائل فلمی ستارے کے خلاف یہ دوسری ایف آئی آر ہے۔ ملیالم فلم انڈسٹری کے کئی اداکاروں، ہدایت کاروں اور فلمسازوں کے خلاف بھی جنسی استحصال کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ملیالم فلم انڈسٹری کے کچھ سرکردہ لوگوں کے خلاف الزامات کا سیلاب گزشتہ ہفتہ جسٹس ہیما کمیٹی کی رپورٹ برسرعام ہونے کے بعد شروع ہوئی ہے۔ 235 صفحات کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملیالم فلم صنعت پر 15-10 مرد فلمسازوں، ہدایت کاروں اور اداکاروں کا کنٹرول ہے۔ تین رکنی جسٹس ہیما کمیٹی کی تشکیل ریاستی حکومت نے 2017 میں کی تھی اور اس نے 2019 میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ رپورٹ کو اب تک برسرعام نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ اسے جاری کرنے میں قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔