معصوم فلسطینیوں کے بارے میں دنیا کو سوچنے کی ضرورت... سید خرم رضا
حماس کے اس حملے کا اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو سیاسی فائدہ ضرور ہوا لیکن اس نے اسرائیل کی فوجی قوت پر بھی سوال کھڑے کر دئے
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہو گئے اور اسرائیل کے 250 لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ حماس کے اس حملے کا اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو سیاسی فائدہ ضرور ہوا لیکن اس نے اسرائیل کی فوجی قوت پر بھی سوال کھڑے کر دئے۔ اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں اب تک 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے اور بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو بہت جلد ایک سال ہونے والا ہے۔ اسرائیل اب تک تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرانے میں ناکام رہا ہے۔ اس تعلق سے مذاکرات بھی ہوئے اور جنگ بندی بھی ہوئی، جس میں کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کو فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا گیا۔ اس بیچ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایران میں قتل کر دیا گیا اور پہلے خود اسرائیل نے ان کے قتل میں اپنی شمولیت کا اقرار بھی کیا جس کے بعد ایسا محسوس ہوا تھا کہ ایران اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی بھی کرے گا لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔
یہ وہ معلومات ہیں جن کا جنگ بندی کو لے کر دوسرے دور کی گفتگو تک ذکر کافی ہوتا رہا اور بات چیت بھی ہوتی رہی۔ اس دوسرے دور کی بات چیت میں قطر، مصر اور امریکہ کی کوشش یہ رہی کہ حماس اور اسرائیل جنگ بندی کے لئے رضامند ہو جائیں لیکن اس کی ناکامی میں بظاہر بنجامن نیتن یاہو اور کہیں نہ کہیں حماس کا بھی ہاتھ ہے۔ تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ پہلی فرصت میں جنگ بندی چاہتا ہے۔ امریکہ کی جنگ بندی کی خواہش اس لئے نہیں ہے کہ اس کو فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی ہے یا اس کی دلچسپی اس میں ہے کہ معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم رک جائے لیکن اس کی دلچسپی امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں۔ امریکی صدارتی امیدوار نہ تو امریکی یہودیوں کو ناراض کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی فلسطینی حامیوں کو ناراض کرنا چاہتے ہیں۔
جس طرح پچھلے کچھ مہینوں سے امریکی وزیر خارجہ بلنکن کی ایک ٹانگ مشرقی وسطی میں ہے اور دوسری ٹانگ امریکہ میں رہی ہے وہ اپنے آپ میں امریکہ کی اس مجبوری کا اظہار کرتی ہے کہ اس کے لئے اس جنگ کا بند ہونا کتنا ضروری ہے۔ امریکہ کے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اس تعلق سے اپنے موقف کا اظہار آسان ہے کیونکہ انہیں فلسطینی حامیوں کی پرواہ کم ہی کرنی ہے۔ ڈیموکریٹ امیدوار ملک کی نائب صدر کملا ہیرس کے لئے زیادہ پریشانی ہے کیونکہ ایک طرف تو انہیں یہودی کاروباری گھرانوں سے فنڈ بھی چاہئے اور دوسری طرف ان کا بنیادی ووٹر فلسطینی حامی ہے اس لئے ان کی خواہش ہے کہ جنگ بندی جلد از جلد ہو جائے۔
اس سارے معاملے میں روز اول سے سیاست نظر آ رہی ہے۔ 8 اکتوبر کا حملہ ہی سب سے بڑی سیاست تھی کیونکہ اس سے پہلے نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں احتجاج جاری تھے اور ان کو پوری طرح انتخابی کامیابی نہیں ملی تھی۔ حماس کے ان حملوں کے بعد سب سے زیادہ فائدہ بنجامن نیتن یاہو کو ہوا ہے۔ ان حملوں کے بعد مغربی ممالک کے سربراہوں نے اسرائیل کے چکر لگا کر اپنی حمایت کے اعلان کے ساتھ حماس کو کوسنا شروع کر دیا۔ اسماعیل ہنیہ کا قتل ہو یا جنگ بندی پر دوسرے دور کی بات چیت کا جاری رہنا ہو، اس سب کا کسی کو فائدہ ہوا ہے تو نیتن یاہو کو یعنی اگر اس تنازعہ سے سب سے زیادہ کوئی فائدہ میں رہا تو وہ نیتن یاہو رہا اور اگر سب سے زیادہ کوئی نقصان میں رہا تو وہ فلسطین کے وہ معصوم ہیں جن کی جانیں گئیں اور وہ جو زخمی اور بے گھر ہوئے۔
نیتن یاہو اس وقت کے فائدے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس اپنے صدر کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں، حماس کے قائدین اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن اصل میں سوچنا چاہئے ان فلسطین کے لوگوں کے بارے میں جو بڑی تعداد میں بے گھر ہو گئے، زخمی ہو گئے اور جن معصوموں کی جانیں چلی گئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو ان معصوم فلسطینیوں کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔