مہاراشٹر: سبزی و گوشت خور طلبا کی شناخت کے لیے آئی ڈی کارڈ پر لگائے جائیں گے سرخ اور سبز نشان!
مہاراشٹر حکومت کے ذریعے جاری اس سرکولر پر سخت اعتراض کیا جا رہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی تقسیم کے بغیر بھی حکومتی اسکیم کو بہتر طریقے سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔
ممبئی: مہاراشٹر کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کی شناخت اب ان کے کھانے کی ترجیحات کی بنیاد پر کی جائے گی اور اس کے لیے انہیں سبز اور سرخ نقطوں کے نشان والے شناختی کارڈ دیے جائیں گے۔ جن طلباء کو سبز نقطے والے کارڈ دیے جائیں گے وہ سبزی خور تصور کیے جائیں گے اور جن کے کارڈ پر سرخ نقطے ہوں گے انہیں نان ویجیٹیرین یعنی گوشت خور سمجھا جائے گا۔
مہاراشٹر میں بی جے پی، شندے و پوار کی مشترکہ حکومت نے اسکولوں کی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس فیصلے کو فوری طور پر نافذ کرنے کا پروگرام بنائیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ’پردھان منتری پوشن شکتی یوجنا‘ کے تحت طلباء کو دیے جانے والے پھلوں اور انڈوں کی تقسیم کو بہتر بنانے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل مہاراشٹر کے اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ بچوں کے دوپہر کے کھانے میں غذائیت والی اشیاء شامل کرنے کے لیے کچھ دیگر کھانے کی چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ ان میں پھلوں کے طور پر کیلے اور انڈے شامل ہیں۔ جو طالب علم ویجٹیرین یعنی کہ سبزی خور ہیں انہیں کیلے، اور جو طالب علم نان ویجیٹیرین یعنی کہ گوشت خور ہیں انہیں انڈے دیے جائیں گے۔ لیکن بدھ (24 جنوری) کو اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے اسکولوں کی انتظامیہ کمیٹیوں سے کہا کہ تقسیم کے نظام کو بہتر طریقے سے رو بہ عمل لانے کے لیے طلبا کے شناختی کارڈوں پر سبز اور سرخ رنگ کے نشانات لگائے جائیں۔
’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع خبر کے مطابق اس فیصلے پرسخت تنقید کی جا رہی ہے۔ ماہرین تعلیم نے اسے غیر ضروری درجہ بندی قرار دیا ہے۔ انڈین ایکسپریس نے اس سلسلے میں ماہر تعلیم وسنت کلپانڈے کا بیان شائع کیا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے کہ طلباء کو نشان زد کیے بغیر بھی اس اسکیم کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یہ طلباء کو کھانے کی ترجیحات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارا سماجی ڈھانچہ ایسا ہے کہ بعض اوقات متنوع ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے کچھ طالب علم کبھی کبھار انڈے کھاتے ہیں، بھلے ہی انہیں سبزی خور قرار دیا جائے۔‘‘
اخبار نے کچھ اساتذہ کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا اسکول کے حاضری رجسٹر سے بھی کیا جا سکتا تھا اور اس کے لیے آئی کارڈ پر نشان لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کئی اساتذہ نے یہ بھی کہا کہ وہ طلبا کی ترجیحات کو پہلے سے جانتے ہیں اور طلبا خود اس کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے سرکلر میں کہا گیا ہے کہ جن طلباء کے والدین نان ویجیٹیرین کھانے پر اپنی رضامندی دیں ان کے شناختی کارڈ پر سرخ نشان لگا دیا جائے اور جن طلباء کے والدین کی رضامندی نہ ہو انہیں سبز رنگ سے نشان زد کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان طلباء کا کیا ہوگا جو کبھی کبھار انڈے یا نان ویجیٹیرین کھانا کھاتے ہیں۔
حکومتی تجویز میں کہا گیا ہے کہ ایسے اسکول جہاں 40 فیصد والدین نے اپنے بچوں کو انڈے نہ دیے جانے پر رضامندی نہیں دی ہے، انہیں مڈ ڈے میل اسکیم سے باہر رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں ’اسکان‘ جیسے اداروں سے بھی طلباء کے لیے کھانا ملتا ہے، جس میں زیادہ تر پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔ حکومت کے اس نئے حکم پر کچھ گروپوں کا کہنا ہے کہ طلباء کو مذہب یا کھانے کی ترجیح کی بنیاد پر تقسیم کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ ساتھ ہی کچھ گروپس کا دعویٰ ہے کہ کھانے میں انڈے جیسی چیزیں شامل کرنے سے بہت سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔ اس درمیان ’فری پریس جرنل‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دوپہر کے کھانے میں انڈے شامل کرنے کا معاملہ کافی عرصے سے متنازعہ ہے۔ ملکی سطح پر بات کی جائے تو مہاراشٹر سمیت صرف 14 ریاستوں میں دوپہر کے کھانے میں انڈا شامل ہے۔
دوسری جانب ماہرین تعلیم آئی کارڈ کی ’کلر کوڈنگ‘ کو غلط سمجھتے ہیں۔ فری پریس جرنل سے بات کرتے ہوئے ماہر تعلیم کشور دراک نے کہا کہ انہوں نے حکومت سے اس سرکلر میں ترمیم کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسکولوں کے دوپہر کے کھانے میں مذہبی یا ذات پات کے نظام کو لانا قطعاً مناسب نہیں ہے اور اس کے بغیر بھی بچوں کو غذائیت سے بھر پور کھانا دیا جا سکتا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔