آبکاری پالیسی معاملہ: وزیر اعلیٰ کیجریوال نے عدالت میں اپنی جرح خود کی، ای ڈی پر لگایا ’ہفتہ وصولی ریکیٹ‘ چلانے کا الزام
عدالت میں وزیر اعلیٰ کیجریوال نے کہا کہ ای ڈی کے پاس صرف ایک مشن تھا اور وہ تھا مجھے پھنسانا، ایک گواہ نے 3 بیانات دیے لیکن عدالت نے صرف ان لوگوں کی بات سنی جنہوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا، ایسا کیوں؟
آج جب دہلی کے راؤز ایونیو کورٹ میں وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی پیشی ہوئی تو اپنے وکلاء کی موجودگی کے باوجود انھوں نے خود اپنی باتیں عدالت کے سامنے رکھیں۔ وہ ایک پیشہ ور وکیل کی مانند اپنی دلیلیں پیش کرتے نظر آئے اور کئی مواقع ایسے تھے جب ان کا انداز دیکھ کر سبھی حیران رہ گئے۔ انہیں جمعرات کو ای ڈی کے ریمانڈ کے اختتام پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ عدالت میں پیشی کے دوران ای ڈی نے کیجریوال کی ریمانڈ میں مزید 7 دنوں کے اضافہ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر کیجریوال نے کہا کہ ای ڈی تفتیش کے نام پر ہفتہ وصولی کا ریکیٹ چلا رہی ہے۔ حالانکہ اسپیشل جج کاویری باویجا نے دونوں فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد کیجریوال کی ریمانڈ میں یکم اپریل تک توسیع کردی۔ اب کیجریوال کو یکم اپریل کو صبح 11.30 بجے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ کیجریوال کو ای ڈی نے دہلی آبکاری پالیسی سے متعلق منی لانڈرنگ کے معاملے میں 21 مارچ کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد عدالت نے انہیں 28 مارچ تک ای ڈی کی تحویل میں بھیج دیا تھا۔دورانِ سماعت کیجریوال کی ریمانڈ میں توسیع کے لیے ای ڈی نے یہ دلیل دی کہ کیجریوال تفتیش میں قصداً تعاون نہیں کر رہے ہیں اور ان کے وکیلوں نے انکم ٹیکس کی تفصیلات کا اشتراک نہیں کیا ہے۔ ای ڈی نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کیجریوال کو دہلی شراب کیس کے دیگر ملزمین سے سامنا کرانا بہت ضروری ہے۔
ای ڈی کی دلیلوں کے بعد کیجریوال نے اپنی دلیلیں پیش کرنی شروع کیں، جس کی ای ڈی نے مخالفت کی۔ ای ڈی نے کہا کہ کیجریوال کی نمائندگی ان کے وکلاء کو کرنی چاہئے، مگر کیجریوال نے جج سے اجازت طلب کرتے ہوئے اپنی باتیں جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جس کیس میں انہیں گرفتار کیا گیا ہے وہ دو سال پرانا ہے اور ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کیجریوال نے کہا کہ ’’مجھے گرفتار کر لیا گیا، لیکن کسی بھی عدالت نے مجھے مجرم قرار نہیں دیا ہے۔ سی بی آئی نے 31,000 صفحات اور ای ڈی نے 25,000 صفحات کی رپورٹ تیار کی ہے، اگر آپ ان سب کو ایک ساتھ بھی پڑھیں تو بھی یہ سوال برقرار رہتا ہے کہ مجھے کیوں گرفتار کیا گیا؟‘‘
عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کیجریوال نے برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام لگایا کہ وہ ان کی پارٹی کو ’ختم کرنے‘ کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ الیکشن سے قبل سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے بی جے پی کی طرف سے ای ڈی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی ہزار کے جو صفحات تیار ہوئے ہیں، ان میں ان کا نام صرف چار بار آیا ہے، اور ان چار میں سے ایک ’سی اروند‘ ہے نہ کہ ’اروند کیجریوال‘۔ وزیر اعلیٰ کیجریوال نے خاص طور سے کہا کہ سی اروند کے بارے میں درج ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ کچھ ’ایکسائز دستاویزات‘ اس نے میری موجودگی میں دی تھیں۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ کیا اس طرح کا بیان ایک وزیر اعلیٰ کو گرفتار کرنے کے لیے کافی ہے؟ سی اروند سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کے سکریٹری تھے اور انہوں نے حکام کو مطلع کیا تھا کہ سسودیا نے ’کچھ دستاویزات‘ حوالے کیے ہیں۔ سسودیا کو فروری میں اس معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
کیجریوال نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ ’’سرکاری گواہوں کے بیانات، جنہیں اس معاملے میں پہلے گرفتار کیا گیا تھا، انہیں مجھ پر الزام لگانے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ ای ڈی کے پاس صرف ایک مشن تھا اور وہ تھا مجھے پھنسانا۔ ایک گواہ نے تین بیانات دیے لیکن عدالت نے صرف ان لوگوں کی بات سنی جنہوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ ایسا کیوں؟ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘ کیجریوال نے مزید کہا کہ ’’ایک اور گواہ مگنتا سرینواسولو ریڈی نے کہا کہ اس نے 6 بیانات دیے جن میں وزیر اعلیٰ کا نام نہیں لیا۔ وہ خاندانی ٹرسٹ قائم کرنے کے لیے زمین کے سلسلے میں مجھ سے ملنے آیا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ زمین ایل جی کے زیر کنٹرول ہے۔ ریڈی نے اپنے ساتویں بیان میں میرا نام لیا۔ اس کے بیٹے کو اس وقت چھوڑ دیا گیا جب اس نے میرے بارے میں اپنا بیان بدل دیا۔‘‘ تیسرے گواہ سرت چندر ریڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کیجریوال نے کہا کہ انہوں نے بی جے پی کو 55 کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے۔ سرت چندر ریڈی نے کہا کہ اس نے وجے نائر کے ساتھ مجھ سے ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں کیجریوال نے ای ڈی کے ذریعے ریمانڈ میں توسیع کے مطالبہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’’پیسہ کہاں ہے؟ حالانکہ میرے پاس ثبوت ہے کہ ای ڈی ہفتہ وصولی کا ریکیٹ چلا رہی ہے، اس کی تحقیقات کیجیے‘‘۔
کیجریوال کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے ای ڈی کی جانب سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے سوال کیا کہ کیجریوال کو کیسے پتہ چلے گا کہ ای ڈی کے پاس کیا دستاویزات ہیں۔ یہ سب ان کے ذہن کا ایک افسانہ ہے۔ ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں کہ کیجریوال نے 100 کروڑ کک بیکس کا مطالبہ کیا تھا۔ عآپ کو ملنے والی کک بیکس کا استعمال گوا الیکشن میں کیا گیا تھا۔ ہمارے پاس بیانات اور دستاویزات ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیسہ حوالہ نیٹ ورک کے ذریعے آیا۔ ایس وی راجو نے مزید کہا کہ کیجریوال کے بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے لیکن انہوں نے ٹال مٹول کے ساتھ جواب دیا۔ اے ایس جی نے کہا کہ کیجریوال اپنے اکاؤنٹس کے پاس ورڈ ایجنسی کے ساتھ شیئر کرنے سے انکار کر رہے ہیں اس لیے ان کے ڈیجیٹل ڈیٹا تک رسائی نہیں ہو پا رہی ہے۔ اگر وہ ہمیں پاس ورڈ نہیں دیتے ہیں تو ہمیں پاس ورڈز کو کھولنا پڑے گا۔ وہ جان بوجھ کر تعاون نہیں کر رہے ہیں اور ہمیں آئی ٹی آر نہیں دے رہے ہیں۔ بی جے پی کو چندہ دینے والے ملزم کے بارے میں کجریوال کے دعوے کا جواب دیتے ہوئے اے ایس جی نے دعویٰ کیا کہ جو رقم ان کے بقول بی جے پی کو آئی ہے اس کا شراب گھوٹالہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ قانون سے بالاتر نہیں۔ وہ ایک عام آدمی ہیں۔
اس درمیان کیجریوال کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ رمیش گپتا نے عدالت سے اپنی بات رکھنے کی درخواست کی جس پر اے ایس جی نے اعتراض کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ کیجریوال پہلے ہی بول چکے ہیں۔ مگر کیجریوال کے وکیل نے کہا کہ ان کے پاس کچھ اور گزارشات ہیں۔ گپتا نے کہا کہ مجھے بولنے کا حق ہے۔ مجھے بولنے کی اجازت کیسے نہیں دی جا سکتی؟ میں ایک گھنٹہ بات کروں گا۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ تفصیلات جو ہم نے بی جے پی کو دیے گئے انتخابی بانڈ کے بارے میں پیش کیے ہیں عدالت کو اس پر غور کرنا چاہئے اور اس پہلو کی تحقیقات کا حکم دینا چاہئے۔ گپتا نے کہا ’’ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن ان بنیادوں پر نہیں جو ای ڈی پیش کر رہی ہے۔‘‘ گپتا کے ان بیانات کے بعد جج نے کہا کہ ای ڈی نے ریمانڈ کی درخواست دی ہے اور ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس پر کیا فیصلہ کیا جائے۔
اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو کیجریوال کی ای ڈی کی حراست سے رہائی کی عبوری درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ جسٹس سورنا کانتا شرما کی بنچ نے کہا تھا کہ ای ڈی کو جواب دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اور ایسا نہ کرنا منصفانہ سماعت سے انکار کے ساتھ انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہوگی۔ عدالت نے معاملے کی سماعت 3 اپریل تک ملتوی کردی تھی۔ واضح رہے کہ نومبر 2020 میں عآپ حکومت نے دارالحکومت دہلی میں شراب کی نئی پالیسی نافذ کی تھی۔ 8 جولائی 2022 کو دہلی کے چیف سکریٹری نے بتایا کہ شراب کے لائسنس حاصل کرنے والوں کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناجائز فوائد دیئے گئے ہیں۔ 22 جولائی 2022 کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے ان بے ضابطگیوں کی سی بی آئی جانچ کی سفارش کی۔ نو دن بعد 31 جولائی کو عآپ حکومت نے 22-2021 کی آبکاری پالیسی واپس لے لی تھی۔
اس ضمن میں ای ڈی کا یہ کہنا ہے کہ اس شراب پالیسی نے خوردہ فروشوں کے لیے 185 فیصد اور تھوک فروشوں کے لیے 12 فیصد کا زیادہ منافع فراہم کیا۔ جس میں سے چھ فیصد یعنی کہ 600 کروڑ سے زیادہ رشوت تھی اور یہ رقم مبینہ طور پرعآپ کی انتخابی مہم میں فنڈ کے طور پر استعمال کی گئی تھی۔ ای ڈی نے اس معاملے میں وزیر اعلیٰ کو اہم سازش کار کے طور پر نامزد کیا ہے، جبکہ اس معاملے میں گرفتار ہونے والے تمام لوگوں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ 15 مارچ کو ای ڈی نے اس کیس کے سلسلے میں بھارت راشٹر سمیتی کی لیڈر اور تلنگانہ کے سابق وزیر اعلی کے چندرشیکھر راؤ کی بیٹی کے کویتا کو بھی گرفتار کیا تھا جو اب تک حراست میں ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔