ظفر آغا: اصولوں پر قائم رہنے والے دانشمند اور انسان دوست ایڈیٹر
معروف صحافی ظفر آغا اپنی زندگی میں متعدد حادثات اور بیماریوں کے باوجود اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ صحافتی دنیا میں ان کی دانشمندی اور انسان دوستی کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں۔
دیکھنے میں وہ کمزور نظر آتے تھے۔ ایک حادثے میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔ ایک دیگر حادثے نے ان کے گھٹنوں کو تکلیف میں مبتلا کر دیا تھا۔ ان کا نظام ہاضمہ نازک تھا اور اپنے آخری سالوں میں وہ بیماریوں اور انفیکشن سے لڑتے رہے، جن میں کورونا بھی شامل تھا اور اسپتالوں میں آتے جاتے رہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران 2021 میں جب ان کی شریک حیات کا انتقال ہو گیا تو وہ انتہائی مایوس نظر آئے اور اندر ہی اندر ٹوٹ گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : آہ ظفر آغا صاحب!...سہیل انجم
جمعہ 22 مارچ کو جب ان کا دل ہار مان گیا، اس سے ایک ہفتہ قبل وہ اپنی میز پر کام کر رہے تھے اور اپنا کالم لکھ رہے تھے۔ نئی پیشرفت اور اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کے مضمرات پر گفتگو کر رہے تھے۔ اپنی پسند کی شاعری کی سطریں سنا رہے تھے۔ وہ حال ہی میں اپنے آبائی شہر الہ آباد سے واپس لوٹے تھے، جہاں کا انہوں نے وبائی امراض اور کئی سالوں کی قید کے بعد دورہ کیا تھا اور وہ اگلے مہینے وہاں اہل خانہ و دوستوں کے ساتھ عید منانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
تاہم، نمونیا کی شدید بیماری انہیں ایک نجی اسپتال کے آئی سی یو تک لے گئی جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔ کچھ دن پہلے وہ ممبئی کی ہماری ساتھی سجاتا آنندن کی تعزیتی نشست میں شریک ہوئے تھے، جو اچانک ہمیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ وہ بڑے شوق سے یاد کر رہے تھے کہ وہ انہیں ان کی صحت کے بارے میں پوچھنے کے لیے کس طرح فون کرتی تھیں اور ممبئی میں ایک معروف ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت بھی طے کر لیا تھا۔ نیشنل ہیرالڈ کے دفتر میں تمام ساتھی انہیں ظفر صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور دوسروں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے، خواہ وہ مالی امداد ہو یا دہلی میں اکیلے رہنے والے نوجوان ساتھیوں کے لیے صبر سے کام لینے کی تاکید۔
ظفر صاحب کی ایک پرانی دوست سیما مصطفیٰ، جو خود ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور دی سٹیزن کی بانی ہیں، بتاتی ہیں کہ کس طرح ایڈیٹرز اور اخبار کے مالکان دونوں ان کی قدر جانتے تھے اور انہیں اچھی ملازمتوں کی پیشکش کی تھی لیکن وہ زیادہ دیر تک کہیں نہیں رہ سکے کیونکہ وہ سب سے زیادہ اپنی آزادی اور حق پرستی کی قدر کرتے تھے۔ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے طویل عرصے تک ملازمت اور مستقل آمدنی سے دور رہنا پسند کرتے تھے۔
الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر 1970 کے ہندوستان میں پروان چڑھنے والے ظفر صاحب بایاں محاذ، لبرل اور سیکولر نظریات کی کھل کر حمایت کرتے تھے لیکن جو لوگ ان سے اختلاف رکھتے تھے ان کے ساتھ بھی وہ ہمیشہ باوقار رویہ اپناتے تھے۔ وہ اکثر زور دے کر کہتے تھے کہ کیا ہندوستان میں جمہوریت کا زمانہ ختم ہونے والا ہے! جب ادے پور میں ایک ہندو درزی کا پیغمبر اسلامؐ کی توہین کرنے کے الزام میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا تھا اور اس پر آر ایس ایس اور بی جے پی نے فرقہ وارانہ نعرے بلند کیے، ظفر صاحب نے قارئین کو یاد دلایا کہ پیغمبر محمدؐ کو رحمت کا پیغمبر ’رسولِ کریم‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’قاتلوں نے مقتول پر رحم نہیں کیا اور پیغمبرؐ کا بھی احترام نہیں کیا۔ جن لوگوں نے مذہب کے نام پر یہ جرم کیا وہ اسلام اور سیرت نبویؐ سے واضح طور پر ناواقف تھے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔