صحافت کے عظیم ستون ظفر آغا، ایک مثالی صحافی کی جدوجہد کی داستان...سیما مصطفی

ظفر آغا، صحافت کے شعبے کا ایک روشن چراغ تھے۔ انہوں نے بے لوث صحافت کی اور حق و سچ کے لئے جدوجہد کی۔ ان کی زندگی مشکلات سے بھرپور تھی لیکن وہ ہمیشہ وقار اور جرات کے ساتھ کھڑے رہے

ظفر آغا، چیف ایڈیٹر قومی آواز
ظفر آغا، چیف ایڈیٹر قومی آواز
user

قومی آواز بیورو

’’میری زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ میں ایک مسلمان ہوں، ایک شکست خوردہ مسلمان۔ یہ میرے خوابوں اور عقائد کا ہندوستان نہیں تھا!‘‘ ظفر آغا

ظفر آغا صرف ایک ساتھی ہی نہیں، اصولوں کے پابند ایک صحافی بھی تھے، بلکہ میرے محاذ کے ساتھی بھی تھے۔ وہ خاموش اور بے ضرر شخص تھے، صحافت کی ایسی کٹھن دنیا میں ہمیشہ دوست بن کر رہے۔ ایک نرم دل انسان جو وقت نکال کر فون کرتے تھے جب انہیں لگتا تھا کہ آپ مشکل میں ہیں، یا خود سیاسی حالات سے دلبرداشتہ ہوتے تھے۔ ہم کبھی ذاتی باتیں (خاندانوں اور مشترکہ دوستوں کے بارے میں) نہیں کرتے تھے لیکن پھر بھی ہمارا تعلق ذاتی تھا، ظفر ہمیشہ محبت کرنے والے اور دیکھ بھال کرنے والے شخص تھے۔

ظفر آغا نے مایہ ناز اداروں کے ساتھ کام کیا کیونکہ وہ ایک بہترین صحافی تھے اور سرکردہ میڈیا اداروں کے مالکان بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے لیکن وہ زیادہ تر ملازمتوں میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرے کیونکہ وہ سچائی اور خبروں اور حقائق پر یقین رکھتے تھے۔ بقول ان کے، ہم ایک ایسی نسل سے وابستہ ہیں، جس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور پیسے کے بجائے بغیر تنخواہ کے باہر رہنا پسند کریں گے۔ وہ ہمیشہ اپنے الفاظ پر کھرے تھے اور ان کی زندگی میں ایسے ادوار بھی گزرے جب انہوں نے ذریعہ معاش کے لیے جدوجہد کی! وہ طویل عرصے تک بغیر ملازمت کے رہے لیکن کبھی اپنے وقار یا سچائی کے عہد سے روگردانی نہیں کی۔


ظفر آغا کو ہر کوئی جانتا تھا اور وہ غالباً ہمارے زمانے کے سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے اور قابل احترام صحافیوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے دہلی کی صحافت نہیں کی اور کاک ٹیل پارٹیوں اور اس طرح کے اجتماعات سے پرہیز کیا۔ انہوں نے کبھی بھی کسی سے بدسلوکی نہیں کی اور وہ ان صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے کبھی گپ شپ یا چغل خوری کی حوصلہ افزائی نہیں کی، وہ ہمیشہ مسائل کے بارے میں بات کرتے تھے۔ بطور ایڈیٹر یا رپورٹر ظفر ہمیشہ ایک جیسے تھے۔

پچھلے کچھ سالوں سے وہ پریشان تھے اور وہ اس کے بارے میں بتانے کے لیے فون بھی کرتے تھے۔ وہ اکثر اس موضوع پر بات کرتے تھے کہ سیاست اور ملک کس طرف جا رہا ہے اور مستقبل کتنا تاریک نظر آ رہا ہے لیکن انہوں نے کبھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ ان پر ذاتی طور پر کیا گزر رہی ہے، خواہ انہوں نے اپنی بیوی کو کووڈ سے کھو دیا ہو، یا خود اس قدر بیمار ہو گئے ہوں کہ سنبھلنا مشکل ہو گیا ہو۔ انہوں نے کبھی اپنے جوان بیٹے مونس کے لیے اپنی فکر کا تذکرہ نہیں کیا، جو ان کی زندگی کا چراغ تھا اور آج تنہا ہے۔ یا حقیقت یہ ہے کہ جب اسے دوڑ دھوپ کے بعد بالآخر نوکری مل گئی تو اس کی ذاتی زندگی المیے میں بدل گئی۔ یا ملازمت کے بغیر اور مستقل آمدنی کے بغیر زندگی کتنی مشکل تھی!


ظفر نے کبھی خود کو مسلمان نہیں بلکہ صرف ایک ہندوستانی سمجھا۔ مذہبی تشخص کبھی بھی ان کا حصہ نہیں تھا، اس لیے انہوں نے شکست خوردہ اور استحصال کا شکار ہونے کے بارے میں جو الفاظ لکھے وہ صرف صدمے کی وجہ سے نہیں تھے، بلکہ ہماری جمہوریت کے بگاڑ کا بیان ہے۔ ایک انحطاط جس نے اس قابل فخر، باوقار شخص کو متاثر کیا تھا، جو نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہونے کی جدوجہد کر رہا تھا۔

انہوں نے اپنی زندگی، خواہ وہ ذاتی ہو یا پیشہ ورانہ، ہر سطح پر جدوجہد کی اور بغیر کسی شکایت کے ہر نشیب و فراز کو خوشنودی کے ساتھ قبول کیا۔ ظفر آغا محبت اور رواداری کی زندہ مثال تھے اور ان کے پاس ملازمت رہی ہو یا نہ رہی ہو وہ ایک جیسے تھے، ہمیشہ مسکراتے، حوصلہ دیتے اور جب آپ کو سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تو آپ کا ہاتھ تھام لیتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔