آہ ظفر آغا صاحب!...سہیل انجم

ظفر صاحب کا انتقال صحافیوں کی اس نسل کے اہم ستون کا گر جانا ہے جو مادی فوائد کے بجائے صحافتی اصولوں کو گلے لگائے ہوئے ہے۔ جسے سخت کوشی تو منظور ہے لیکن حکومت و اقتدار کے جبر کے آگے جھکنا منظور نہیں

قومی آواز کے مدیر اعلی ظفر آغا
قومی آواز کے مدیر اعلی ظفر آغا
user

سہیل انجم

جب 22 مارچ کی صبح صبح سوشل میڈیا کے توسط سے یہ دلدوز خبر ملی کہ سینئر صحافی جناب ظفر آغا صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے تو ذہن و دل کو ایک دھچکہ سا لگا۔ حالانکہ یہ تو معلوم تھا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں رہتی لیکن یہ اندازہ قطعاً نہیں تھا کہ وہ اتنی جلد دنیا کو خیرباد کہہ دیں گے۔ ان کا جانا جہاں اردو اور انگریزی صحافت کا بڑا خسارہ ہے وہیں دنیائے صحافت کا ایک اچھے صحافی سے محروم ہو جانا بھی ہے۔ خبر ملتے ہی میں نے سب سے پہلے ان کے بھائی جناب قمر آغا صاحب سے، جو کہ ملک کے چوٹی کے تجزیہ کار ہیں، بذریعہ فون اظہار تعزیت کیا۔ انھوں نے بھی وہی بات بتائی جو سوشل میڈیا سے معلوم ہوئی تھی۔ یعنی ان کو خطرناک قسم کا نمونیا ہو گیا تھا جسے ان کا کمزور و نحیف جسم برداشت نہیں کر سکا اور وہ داعی اجل کو لبیک کہنے پر مجبور ہو گئے۔

ان کا انتقال صحافیوں کی اس نسل کے ایک اہم ستون کا گر جانا ہے جو مادی فوائد کے بجائے صحافتی اصولوں کو گلے لگائے ہوئے ہے۔ جسے سخت کوشی تو منظور ہے لیکن حکومت و اقتدار کے جبر کے آگے جھکنا منظور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پر فرض شناس اور بیباک صحافیوں نے بڑھ چڑھ کر اظہار تعزیت کیا اور ان کی رحلت کو صحافت کا ایک بڑا خسارہ قرار دیا۔ ظفر آغا بنیادی طور پر انگریزی کے صحافی تھے۔ لیکن وہ زندگی کے نصف آخر میں اردو صحافت کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ کئی اردو روزناموں کی ادارتی ذمہ داریوں سے وابستہ رہے۔ انتقال سے قبل تک وہ نیشنل ہیرالڈ کے شہرہ آفاق اردو روزنامہ قومی آواز کے نام سے چلنے والے ویب پورٹل کے مدیر اعلیٰ رہے۔ وہ کچھ دنوں تک نیشنل ہیرالڈ، قومی آواز اور نوجیون کے گروپ ایڈیٹر بھی رہے۔


میں ان کی رپورٹیں انگریزی جریدہ ’انڈیا ٹوڈے‘ اور ’سنڈے آبزرور‘ میں پڑھتا رہا ہوں۔ لیکن جب وہ ای ٹی وی اردو پر ہفتے میں ایک بار کسی سیاست داں کا انٹرویو کرنے لگے جو کافی دنوں تک جاری رہا، تب ان کی صحافتی صلاحیتوص کا حقیقی علم ہوا۔ وہ پروگرام بہت مقبول تھا اور ای ٹی وی کے ناظرین اس کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔ لیکن ان سے میری قربت اس وقت بڑھی جب وہ 2011 میں شاہین باغ سے نکلنے والے اردو روزنامہ ’جدید میل‘ کے ایڈیٹر ہوئے۔ ایک روز میں نے ان کو فون کیا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ اگلے روز دفتر آ جائیے۔

میں دوسرے روز شام کے وقت ان کے دفتر پہنچا تو وہ موجود تھے۔ میں نے انھیں میڈیا پر اپنی کتاب ’میڈیا روپ اور بہروپ‘ پیش کی۔ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے اور پھر بولے کہ کیا آپ ہمارے اخبار کے لیے کالم لکھ سکتے ہیں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ کی ادارت میں نکلنے والے روزنامہ میں کالم لکھنا میرے لیے باعث مسرت ہوگا۔ اسی وقت سے اس میں میرا ہفتہ واری کالم شائع ہونے لگا۔ وہ اس کو ادارتی صفحے پر اوپر کی جانب بہت نمایاں انداز میں لگاتے تھے۔ جب تک وہ اخبار نکلتا رہا، وہ اس کے ایڈیٹر رہے اور اس وقت تک اس میں میرا کالم شائع ہوتا رہا۔


اسی درمیان جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ کے اس وقت کے چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے ایک شام کو جامعہ کے خیابان اجمل میں جسٹس مارکنڈے کاٹجو ایک اردو کے موضوع پر ایک لیکچر رکھا جس کا عنوان تھا ’اردو کیا ہے؟‘ جسٹس کاٹجو نے اردو زبان کے حق میں انتہائی عالمانہ و فاضلانہ لیکچر دیا۔ لیکچر سے کچھ دیر قبل ظفر آغا صاحب نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ اس لیکچر میں جا رہے ہیں۔ میں نے کہا ارادہ تو ہے۔ کہنے لگے اگر نہیں جا رہے ہیں تو ضرور جائیے اور میری خاطر جائیے۔ میں نے کہا کہ آپ کی خاطر جانے کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس کی جتنی اچھی رپورٹ آپ بنا سکتے ہیں میرے حلقے میں ایسا کوئی نہیں ہے جو اتنی اچھی بنا سکے۔ آپ ہمارے اخبار کے لیے اس لیکچر کی رپورٹنگ کر دیں۔ میں نے ہامی بھر لی اور لیکچر ختم ہوتے ہی گھر آ کر میں نے کمپیوٹر پر رپورٹ کمپوز کر کے ان کو میل کر دی جسے انھوں نے صفحہ اول پر نمایاں انداز میں لگایا تھا۔

میں نے اس خبر کو غیر روایتی انداز میں شروع کیا۔ اس کا ابتدائیہ کچھ یوں تھا کہ ’’سپریم کورٹ کے آنریبل جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خیابان اجمل میں اردو عدالت لگائی لیکن انھوں نے فیصلہ نہیں سنایا بلکہ اردو کی وکالت کی اور اردو زبان کے ایک شیدائی کی حیثیت سے اس کا مقدمہ لڑا اور اردو کے ایک وکیل کی حیثیت سے مدلل، پُر اثر اور قائل کن بحث اور جرح کی۔ انھوں نے اس باوقار تقریب میں موجود متعدد معزز ججوں اور وکلا حضرات سے درخواست کی کہ وہ بھی ان کے مانند اردو زبان کا کیس لڑنے کے لیے آگے آئیں اور جج حضرات اپنے فیصلوں میں اور وکلا اپنی بحثوں میں اردو زبان اور اردو اشعار کا خوب استعمال کریں۔‘‘


بہرحال وہ اخبار بند ہو گیا۔ اسی دوران یو پی اے حکومت نے ’قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات‘ کے چیئرمین کی حیثیت سے جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کی سبکدوشی کے بعد ظفر آغا کو اس کا رکن اور پھر غالباً چیئرمین انچارج بنا دیا تھا۔ مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ اس دفتر میں بھی ان سے میری ایک ملاقات ہوئی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد جب یہ خبر ملی کہ قومی آواز کا پورٹل شروع ہونے والا ہے اور ظفر آغا کو اس کا ایڈیٹر بنایا گیا ہے تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے انھیں فون کر کے مبارکباد پیش کی تو کہنے لگے کہ صرف مبارکباد سے کام نہیں چلے گا بلکہ آپ کو ہمارے لیے کالم لکھنا ہوگا۔ میں نے بخوشی اپنی رضامندی ظاہر کی۔ اس کے بعد مضامین کی پالیسی وغیرہ پر بھی صلاح و مشورہ ہوا۔ پہلے یہ طے ہوا کہ میں ہفتے میں دو کالم لکھوں۔ لیکن پھر اسے ہفتہ واری کر دیا گیا۔ انھوں نے متوقع کالم نگاروں کے بارے میں بھی مشورہ کیا۔ میں نے اس وقت اخباروں میں چھپنے والے متعدد کالم نگاروں کے نام بتائے جن میں سے کچھ کو انھوں نے چھاپنا شروع کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ ان میں سے کئی نام غائب ہو گئے۔ لیکن یہ میرے لیے باعث فخر و مسرت ہے کہ انھوں نے مجھے پینل سے باہر نہیں کیا۔ بلکہ جس ہفتے کالم بھیجنے میں تاخیر ہو جاتی ہے تو دفتر سے فون آ جاتا ہے۔

میں قومی آواز کے دفتر میں ان سے ملنے بھی دو ایک بار گیا لیکن اتفاق ایسا رہا کہ وہ موجود نہیں تھے۔ البتہ اس سے وابستہ سینئر صحافی خرم رضا صاحب ملے اور بڑی محبت سے ملے۔ انھوں نے اس وقت کے نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر سے ملوایا بھی۔ وہاں ایک آرٹسٹ جناب قاضی راغب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جن سے ہماری بڑی پرانی ملاقات رہی ہے۔ بہرحال ظفر آغا صاحب سے بذریعہ فون برابر رابطہ قائم رہا۔ اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا کہ میں ’وائس آف امریکہ‘ کے لیے اپنی سیاسی رپورٹوں میں ایکسپرٹ کمنٹس کے لیے ان کو فون کرتا اور وہ فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لیے تیار ہو جاتے۔ میں قمر آغا صاحب سے بھی ایکسپرٹ کمنٹس لیتا رہا ہوں۔ وہ بین الاقوامی امور اور دہشت گردی کے مسئلے پر زبردست معلومات رکھتے ہیں۔


روزنامہ قومی آواز کی تاریخ پر میری کتاب ’جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز‘ 2022 میں منظر عام پر آئی۔ اس کے آخر میں میں نے قومی آواز کی ویب سائٹ پر بھی ایک مضمون شامل کیا ہے جس میں میں نے ظفر آغا صاحب کی صحافتی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ میں یہاں پر اس کا ایک پیراگراف پیش کرنا چاہوں گا۔ میں نے ان کے بارے میں اس کتاب میں لکھا تھا:

”ظفر آغا کا نام صحافتی دنیا میں کافی معروف ہے۔ وہ ایک سنجیدہ صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے 70 کی دہائی میں اپنے صحافتی کریئر کا آغاز کیا۔ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں میڈیا کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ الہٰ آباد سے تعلق رکھنے والے ظفر آغا انگریزی رسائل و جرائد لنک، بزنس اینڈ پولیٹیکل آبزرور، انڈیا ٹوڈے اور پیٹریاٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ ایک عرصے تک ٹی وی چینل ای ٹی وی کے لیے، جو کہ اب نیوز 18 ہو گیا ہے، مختلف شخصیات کے انٹرویوز کرتے رہے ہیں جنھیں بڑے پیمانے پر اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ انگریزی کے علاوہ ان کو اردو صحافت کا بھی خاصا تجربہ ہے۔ وہ روزنامہ جدید میل کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ ان کے کالم ملک و بیرون ملک کے اردو اخباروں میں بھی مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے صحافتی تجربات کو بروئے کار لاکر قومی آواز کو اسی مقام پر فائز کریں گے جو اس کا طرہئ امتیاز تھا۔‘‘

اور مجھے اس کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ انھوں نے قومی آواز پورٹل کو معیاری پورٹل کی صفوں میں کھڑا کر دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔