کرناٹک حجاب تنازعہ: حقوق نسواں اور جمہوری حقوق کی حامی تنظیموں کا باحجاب مسلم طالبات سے اظہار یکجہتی

ایک کھلے خط کے ذریعے انہوں نے کہا ہے کہ مسلم خواتین کی ’آن لائن‘ نیلامی اور ان کے خلاف نازیبا تبصرے کرنے کے بعد ہندوتوا حامیوں نے اب حجاب کے نام پر مسلم خواتین کو بلا وجہ نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: کرناٹک میں مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے اسکول کالجوں میں داخلہ دینے سے انکار کے بعد کھڑے ہوئے تنازعہ کے درمیان ہزاروں حقوق نسواں، جمہوری حقوق کی حامی تنظیموں، انجمنوں، ماہرین تعلیم، وکلا اور دیگر اہم شخصیات نے مجموعی طور پر مسلم طالبات سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کی ہے۔ ایک کھلے خط کے ذریعے انہوں نے کہا ہے کہ مسلم خواتین کی ’آن لائن‘ نیلامی کرنے اور ان کے خلاف نازیبا تبصرے کرنے کے بعد ہندوتوا حامیوں نے اب حجاب کے نام پر مسلم خواتین کو بلا وجہ نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

کل 1750 سے زیادہ اہم شخصیات کے دستخط والے کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ آئین اسکولوں اور کالجوں کو فروغ دینے کا حکم دیتا ہے، نہ کہ یکسانیت کا۔ ایسے اداروں میں یونیفارم کا مقصد مختلف اور غیر مساوی معاشی طبقات کے طلبا کے درمیان فرق کو کم کرنا ہے۔ ان کا مقصد ایک کثیر ملک پر ثقافتی یکسانیت مسلط کرنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھوں کو نہ صرف کلاس روم میں بلکہ پولیس اور آرمی میں بھی پگڑی پہننے کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو طلبا بغیر کسی تبصرے یا تنازعہ کے اسکول اور کالج یونیفارم کے ساتھ بندی، تلک، وبھوتی وغیرہ لگاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مسلم خواتین کو بھی اپنی یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کا اختیار ہے۔


کھلے خط میں مزید کہا گیا کہ باحجاب خواتین کو علیحدہ کلاس رومز میں بٹھانا یا اپنی پسند کے کالجوں سے مسلمانوں کے زیر انتظام کالجوں میں منتقل کرنا نسل پرستی کے سوا کچھ اور نہیں! ساحلی کرناٹک میں ہندو بالادستی کے گروہ 2008 سے ہندو اور مسلم ہم جماعتوں، دوستوں، محبت کرنے والوں پر حملہ کرتے ہوئے، اس طرح کی نسل پرستی کو نافذ کرنے کے لیے تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے تشدد کے ساتھ ہندو خواتین پر بھی اتنے ہی پرتشدد حملے ہوتے ہیں جو پب میں جاتی ہیں، مغربی لباس پہنتی ہیں، یا مسلمان مردوں سے محبت یا شادی کرتی ہیں۔ انہی ہندو بالادستی کے خواہاں عناصر کے ذریعہ مسلم اور ہندو خواتین کے خلاف نفرت پر مبنی اسلاموفوبک نفرت انگیز جرائم بھی شامل ہو گئے ہیں۔

س خط کی توثیق 15 ریاستوں کے 130 سے زیادہ گروپوں نے کی ہے جن میں آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن، آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن، نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن، بیباک کلیکٹو، سہیلی ویمن ریسورس سینٹر، آواز نسواں، نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹس، فورم اگینسٹ اوپریشن آف ویمن، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز، دلت ویمن کلیکٹو، نیشنل فیڈریشن آف دلت ویمن شامل ہیں۔


کھلے خط پر دستخط کرنے والی شخصیات میں کویتا کرشنن، مریم دھاولے، اینی راجہ، ارونا رائے، رادھیکا ویمولا، صفورہ زرگر، حسینہ خان، خالدہ پروین، اوما چکرورتی، وریندا گروور، ستنام کور، سادھنا آریہ اور دیگر خوتین کے نام شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔