جمعیۃ علمائے ہند نے پھر پیش کی مثال، ہندو بچوں کو بھی دی گئی اسکالرشپ

فرقہ پرستی کوملک کے لیے زہر ہلال قرار دیتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ فرقہ پرستی نے ملک کو ترقی سے دور کردیا ہے اور اس قدر نفرت پھیل چکی ہے کہ بات بات پر لوگ تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

مولانا ارشد مدنی، تصویر آئی اے این ایس
مولانا ارشد مدنی، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

نئی دہلی: جمعیۃ علمائے ہند جس طرح رفاہی اور بازآبادکاری کے کاموں میں مذہبی تفریق سے اوپر اٹھ کر ضرورت مند لوگوں کو امداد فراہم کر رہی ہے اسی طرح اس نے تعلیم کے میدان میں بھی اسکالرشپ دینے میں مذہبی تفریق کی دیوار کو توڑتے ہوئے مسلم بچوں کے ساتھ ہندو بچوں کو بھی اسکالر شپ دی ہے، جن کا تعلق مختلف صوبوں سے ہے اوراس کے لئے اسکالر شپ کی رقم دوگنی کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے کردی گئی ہے۔

جمعیۃ علمائے ہند نے تعلیمی وظائف دینے کا باضابطہ سلسلہ 2012 شروع کیا ہے۔ اس سے قبل بھی اسکالرشپ دی جاتی تھی لیکن انفرادی طور پر تھی لیکن اسے 2012 میں باضابطہ ایک کمیٹی ’امدادی تعلیمی فنڈ‘ کے نام سے قائم کرکے تعلیمی وظائف دینے کا سلسلہ شروع کیا جسے اس سال بڑھاکر ایک کروڑ روپے کی رقم کردی گئی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ جو بھی جمعیۃ کے معیار پر پورا اترا ان سب کو وظیفہ دیا گیا ہے جن میں ہندو طالب علموں کی بھی بڑی تعداد ہے اور جتنے ہندو طالب علم اس کے معیار پر کھرے اترے ان سب کو اسکالر شپ دی گئی ہے۔ 2020/2021 کے لئے 656 طلبہ کو اسکالر شپ دی گئی ہے۔


جمعیۃ علمائے ہند جن کورسوں کے لئے اسکالر شپ دیتی ہے ان میں میڈیکل، ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، بی یو ایم ایس، ایم ڈی، فارمیسی، نرسنگ، انجینئرنگ، بی ٹیک، ایم ٹیک، پالی ٹیکنک، گریجویشن میں بی ایس سی، بی کام، بی اے، بی بی اے، بی سی اے، ماس کمیونی کیشن، ایم اے میں ایم کام، ایم ایس سی، ایم سی اے، ڈپلوما، پولی ٹیکنک، آئی ٹی آئی، بی ایڈ، ایم ایڈ، ڈی لیڈ وغیرہ شامل ہیں۔

جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے تعلیمی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تعلیم کی مد میں دوگنا اضافہ کرتے ہوئے اس کی رقم ایک کروڑ روپے کردی ہے۔ مولانا مدنی کا احساس ہے کہ تعلیم کے بغیر قوم اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی اور اس کے لئے ذات پات، مذہب اور علاقہ سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔


جمعیۃ کی خاصیت رہی ہے کہ وہ ہر شعبے میں کام کرتی ہے، جہاں ایک طرف بے گناہوں کو جیل سے رہا کرواتی ہے، وہیں بازآباد کاری کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند روز اول سے تعلیم کی ترویج واشاعت پر نہ صرف زور دے رہی ہے، بلکہ والدین کو اس بات کے لئے مسلسل تحریک بھی دیتی رہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہرصورت زیورتعلیم سے آراستہ کریں۔ اس لئے ایک طرف جہاں یہ مکاتب ومدارس یہ قائم کر رہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زور دینا شروع کر دیا ہے جو روزگار فراہم کرتا ہے۔ جمعیۃ کی ضرورت مند طلبہ کو یہ تعلیمی وظائف دینے کا مقصد یہ ہے کہ وسائل کی کمی یاغربت کی وجہ سے ذہین اور ہونہار بچے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔

مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ایسے دور میں جب کہ پانی پینے پرمذہب پوچھ کر زدوکوب کیا جاتا ہے ایسے میں ہمیں جمعیۃ کی مذہب سے اوپر اٹھ کر تعلیمی مہم ملک کو نیا راستہ دکھائے گی اور ہم تعلیم اور رفاہی کاموں کے ذریعہ نفرت کے زہر کو مٹانے کی کوشش کریں گے تاکہ آگے کسی کو محض مذہب کی بنیاد پر پانی پینے پر زدو کوب نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی شناخت گنگا جمنی تہذیب سے ہے اور اس طرح کے تکلیف دہ واقعات سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ فرقہ پرستی کو ملک کے لئے زہر ہلال قرار دیتے ہوئے کہا کہ فرقہ پرستی نے ملک کو ترقی سے دور کردیا ہے اور اس قدر نفرت پھیل چکی ہے کہ بات بات پرلوگ تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اسے تعلیم اور فلاحی کاموں سے ہی روکا جاسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔