’بی جے پی سکم اسمبلی انتخاب تنہا لڑے گی تو 500 ووٹ بھی نہیں ملیں گے‘، بی جے پی رکن اسمبلی نے پارٹی کو کیا متنبہ
بی جے پی رکن اسمبلی وائی ٹی لیپچا نے اپنے بیان میں کہا کہ سکم میں 2024 میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں ایس کے ایم کے ساتھ اتحاد کے بغیر بی جے پی کے کسی بھی سیٹ پر جیتنے کا امکان انتہائی کم ہے۔
سکم میں آئندہ سال اسمبلی انتخاب ہونے والے ہیں۔ اس تعلق سے سبھی پارٹیوں کی سرگرمیاں بھی تیز ہو گئی ہیں، لیکن بی جے پی کے لیے حالات بہت اچھے معلوم نہیں پڑ رہے ہیں۔ دراصل گنگٹوک سے بی جے پی رکن اسمبلی وائی ٹی لیپچا نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر پارٹی سکم اسمبلی کا انتخاب تنہا لڑتی ہے تو وہ 500 ووٹ بھی حاصل نہیں کر پائے گی۔ دراصل لیپا برسراقتدار سکم کرانتی کاری مورچہ (ایس کے ایم) کے ساتھ بی جے پی کے اتحاد کی وکالت کر رہے ہیں، جبکہ پارٹی نے ایس کے ایم سے رشتہ توڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔
کچھ دنوں پہلے کی ہی بات ہے جب بی جے پی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ بھگوا پارٹی وزیر اعلیٰ پریم سنگھ تمانگ کی قیادت والے اتحاد میں ایس کے ایم سے مطمئن نہیں ہے اور اسمبلی انتخاب تنہا لڑنے پر غور کر سکتی ہے۔ اسی بیان پر بی جے پی رکن اسمبلی لیپچا نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پارٹی کو متنبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بی جے پی ایسا کرتی ہے تو جیت حاصل نہیں ہوگی۔
28 اگست کو لیپچا نے اپنے بیان میں کہا کہ سکم میں 2024 میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں ایس کے ایم کے ساتھ اتحاد کے بغیر بی جے پی کے کسی بھی سیٹ پر جیتنے کا امکان انتہائی کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی نے اپنے دم پر ایک بھی پنچایت سیٹ نہیں جیتی ہے۔ ایس کے ایم کے ساتھ اتحاد کرنے پر دو اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخاب (گنگٹوک اور مارتم رومٹیک) میں کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’میں ذاتی طور پر اس بات کی حمایت کرتا ہوں کہ ایس کے ایم اور بی جے پی کے درمیان اتحاد 2024 میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ اگر دونوں پارٹیاں ساتھ مل کر انتخاب لڑتے ہیں تو آسانی سے جیت حاصل ہوگی۔‘‘
لیپچا کے بیان پر بی جے پی کا رد عمل بھی سامنے آ گیا ہے۔ بی جے پی ترجمان کمل ادھیکاری کا کہنا ہے کہ لیپچا نے جو بھی بیان دیا ہے وہ ان کا ذاتی نظریہ ہے۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم سکم کی سبھی 32 اسمبلی سیٹوں پر اپنے دَم پر انتخاب لڑیں گے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے درمیان اب تک کسی اتحاد پر کوئی غور و خوض نہیں ہوا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔