ہم اڈانی کے ہیں کون: کیا اڈانی گروپ کے ایجنٹ کی شکل میں کام کرنا قومی مفادات کے موافق ہے؟

اڈانی گروپ پر ہوئے انکشافات کو لے کر کانگریس 'ہم اڈانی کے ہیں کون' سیریز کے تحت روزانہ پی ایم مودی سے گوتم اڈانی اور ان کی کمپنیوں کو لے کر سوال پوچھ رہی ہے، حالانکہ اب تک کسی سوال کا جواب نہیں ملا ہے

کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش
کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش
user

قومی آواز بیورو

کانگریس نے آج پھر پی ایم مودی سے گوتم اڈانی پر تین سوال پوچھے ہیں۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوالوں کا نیا سیٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ "محترم وزیر اعظم جی، 'ہم اڈانی کے ہیں کون' (ایچ اے ایچ کے) سیریز میں آپ کے لیے تین سوالات کا انیسواں سیٹ پیش ہے۔ اڈانی کوئلہ گھوٹالے سے متلعق سوالات کا یہ ہمارا دوسرا سیٹ ہے، جس میں آپ واضح طور سے پھنسے ہوئے ہیں۔ 9 اپریل 2015 کو آپ نے کہا تھا کہ کوئلہ اور اسپیکٹرم میں نیلامی کا نتیجہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر سیاسی قوت ارادی ہو تو گھوٹالے اور بدعنوانی کی بددعا کو ٹالا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوسناک یہ ہے کہ نئے کوئلہ قانون میں موافق التزامات کو لا کر، اپنے پسندیدہ کاروباری شراکت دار کو بڑے کوئلہ کانوں کو پھر سے الاٹ کرنے کے دو ہفتہ کے بعد ہی آپ نے یہ لفظ کہے تھے۔" اس کے بعد جئے رام رمیش نے درج ذیل تین سوالات پیش کیے۔

سوال نمبر 1:

آپ کی حکومت نے 20 مارچ 2015 کو کوئلہ کان (خصوصی التزام) ایکٹ کو کوئلہ کانوں کے قبل کے الاٹمنٹ کو رد کرنے اور از سر نو نیلامی کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے پاس کیا تھا۔ حالانکہ ایکٹ کی دفعہ 11(1) نے قبل الاٹی کے ذریعہ دستخط کردہ کانکنی معاہدوں کو جاری رکھنے کے لیے نئے الاٹی کو اجازت دے کر پیچھے کا راستہ کھول دیا۔ اس کے نتیجہ کار 26 مارچ 2015 کو چھتیس گڑھ میں پرسا ایسٹ اور کینٹے باسن کوئلہ بلاک سمیت دو کانوں کے لیے بی جے پی ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اڈانی گروپ کو کان ڈیولپر اور آپریٹر (ایم ڈی او) کی شکل میں پھر سے مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں اس الاٹمنٹ کی تنقید کرنے والی پالیسی کمیشن کی رپورٹ کو مبینہ طور پر دبا دیا گیا تھا، لیکن اب اس طرح کی خط و کتابت سامنے آئی ہے کہ آپ کے اپنے دفتر کے سینئر افسران نے ان الاٹمنٹس کو 'نامناسب' اور 'مستقل مزاجی و شفافیت' سے عاری بتایا ہے۔ واضح طور سے آپ کے اپنے افسر، غالباً جوابدہ ٹھہرائے جانے کے ڈر سے، اڈانی گروپ کے تئیں اس جانبداری سے دوری بنانا چاہ رہے ہیں۔ کیا ان کے تحریری تبصرے آپ کے پاکھنڈ کی سخت مذمت نہیں کرتی ہیں اور اس بات کو ظاہر نہیں کرتی ہیں کہ آپ واضح طور سے 'گھوٹالے اور بدعنوانی کے گناہ' سے داغدار ہیں؟


سوال نمبر 2:

اس بات کی طرف توجہ مرکوز کرنے کے باوجود کہ اڈانی گروپ کے ساتھ کیے گئے نئے ایم ڈی او معاہدہ غیر شفاف اور نامناسب تھے، آپ کے دفتر کے افسران نے اس طرح کے ممکنہ نامناسب عمل کو روکنے کے لیے صرف مستقبل میں کوئلہ بلاک الاٹمنٹ اصولوں کو ترمیم کرنے کا متبادل چنا۔ انھوں نے مشتبہ اڈانی گروپ کے الاٹمنٹ کو اچھوتا چھوڑ دیا، بھلے ہی یہ گروپ دفعہ 11(1) کے چھپے ہوئے راستے کا واحد استفادہ کنندہ تھا۔ کیا آپ نے اپنے افسران پر یہ یقینی کرنے کے لیے کوئی دباؤ ڈالا کہ از قبل طور سے کوئی ایسی تبدیلی نہ کی جائے جو آپ کے متروں کے کمرشیل مفادات اور نقدی بہاؤ کو نقصان پہنچا سکتا ہو؟

سوال نمبر 3:

14 فروری 2023 کو ایچ اے ایچ کے سیریز کے تحت پوچھے سوالوں میں ہم نے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے ادانی کے گوڈا (جھارکھنڈ) واقع بجلی پلانٹ سے بنگلہ دیش کو بجلی کی فراہمی کے معاہدہ میں اپنی ہم منصب وزیر اعظم شیخ حسینہ پر ان شرائط کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا جو اڈانی پاور کے لیے بے حد مناسب اور بنگلہ دیش کے لیے نامناسب تھیں۔ تب سے یہ بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کی سرکاری کمپنی این ٹی پی سی کے ذریعہ بگیرہاٹ، بنگلہ دیش میں پہلے قائم کیے گءے رام پال بجلی پلانٹ سے زیادہ متوازن بجلی خرید سمجھوتہ (پی پی اے) ہے جو ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عوامی دباؤ نے اڈانی پاور کو گوڈا پلانٹ کی بہت زیادہ ایندھن لاگت پر از سر نو غور کرنے کے لیے مجبور کیا ہے۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے: کیا اڈانی گروپ کے ایجنٹ کی شکل میں کام کرنا اور اپنے پڑوسی ممالک کی قیمت پر اپنے دوستوں کو خوشحال بنانے کی کوشش کرنا ہندوستان کے قومی مفاد میں ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔