حجاب تنازعہ: ’قرآن میں حجاب کا ذکر بھر ہونے سے وہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہو جاتا‘، سپریم کورٹ میں حکومت کی دلیل
کرناٹک حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ 2021 تک سبھی طلبا آرام سے ڈریس کوڈ پر عمل کر رہے تھے، لیکن سوشل میڈیا پر پی ایف آئی نے مہم چلا کر لوگوں کو اس کے لیے اکسایا ہے۔
سپریم کورٹ میں حجاب تنازعہ پر منگل کے روز ہوئی سماعت میں کرناٹک حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اپنی دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے، اس لیے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’کرناٹک حکومت نے ڈسپلن کے مدنظر تعلیمی اداروں کو ڈریس کوڈ نافذ کرنے کو کہا ہے۔ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ ایران سمیت کئی اسلامی ممالک میں خواتین حجاب کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ قرآن میں حجاب کا ذکر ہونے بھر سے وہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہو جاتا۔‘‘
کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے فیصلے کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں آٹھویں دن ہو رہی سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل نے کرناٹک حکومت کے اس حکم کو پیش کیا جس میں سفارش کی گئی تھی کہ سبھی طلبا و طالبات ڈریس (مقررہ لباس) پہنیں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سرکلر مذہبی نہیں ہے، بلکہ وردی سبھی مذاہب کے طلبا کے ذریعہ استعمال کیا جانا چاہیے۔ تشار مہتا نے ساتھ ہی کہا کہ 2021 تک سبھی طلبا آرام سے ڈریس کوڈ پر عمل کر رہے تھے، لیکن سوشل میڈیا پر پی ایف آئی نے مہم چلا کر لوگوں کو اس کے لیے اکسایا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’کئی مسلم لڑکیاں حجاب پہننے لگیں۔ جواب میں ہندو طلبا بھگوا گمچھا پہننے لگے۔‘‘
سپریم کورٹ نے بدھ یعنی کل پھر اس معاملے پر سماعت جاری رکھے جانے کی بات کہی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی سپریم کورٹ حجاب تنازعہ پر کوئی فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔ حالانکہ اسے بڑی بنچ کے حوالے کیے جانے کے اشارے بھی سماعت کے دوران ملے ہیں۔ اگر یہ معاملہ بڑی بنچ کے حوالے کیا جاتا ہے تو فیصلے کے لیے مزید انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے مارچ میں حجاب تنازعہ پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ حجاب پہننا لازمی مذہبی رسم کا حصہ نہیں ہے۔ عدالت نے اڈوپی کے گورنمنٹ پری-یونیورسٹی گرلس کالج کی مسلم طالبات کے ایک طبقہ کے ذریعہ کلاس کے اندر حجاب پہننے کی اجازت مانگنے والی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا۔ اسی فیصلے کے خلاف کئی لوگ اور تنظیمیں سپریم کورٹ پہنچ گئی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔