کیا بی جے پی پہلے دو مرحلوں میں اپنی جنگ ہار گئی ہے؟

انتخابی مہم میں مہارت حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی اتر پردیش میں سات میں سے پہلے دو مرحلوں کے بعد ہی رفتار کھوتی نظر آ رہی ہے۔

پولنگ / تصویر یو این آئی
پولنگ / تصویر یو این آئی
user

سید ضیغم مرتضیٰ

سید ضیغم مرتضیٰ

سپریم لیڈر انتخابی مہم سے غائب ہیں اور پارٹی مشینری سوتی نظر آ رہی ہے۔ اسٹار پرچارک یعنی مہم چلانے والے اسٹار بیہودہ باتیں کر رہے ہیں اور کارکن سست نظر آرہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پارٹی امیدواروں نے رونا دھونا شروع کر دیا ہے اور حامی کافی خاموش نظر آ رہے ہیں اور لوگ ایسی بی جے پی کو نہیں جانتے۔ انتخابی مہم میں مہارت حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی اتر پردیش میں سات میں سے پہلے دو مرحلوں کے بعد ہی رفتار کھوتی نظر آ رہی ہے۔ کیا یہ کچھ اشارہ کرتا ہے؟

یوپی میں ووٹنگ کے پہلے دو مرحلوں کی کہانی کو سمجھنے کے لئے تین واقعات کافی ہیں۔ سب سے پہلے یو پی بی جے پی کے انتخابی کوآرڈینیٹر جے پی ایس راٹھور کا خط ہے جس میں دوسرے مرحلے کے دوران اتر پردیش میں برقعہ پوش خواتین کی جانب سے جعلی ووٹنگ کا الزام لگایا گیا تھا۔ دوسرا، تلہار (شاہجہاں پور) میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرنے کے بعد سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ بی جے پی کارکنوں کی جھڑپ۔ تیسرا اور سب سے اہم، شاملی ضلع کے تھانہ بھون حلقہ کے 40 بوتھوں پر یوگی آدتیہ ناتھ حکومت میں وزیر سریش رانا کا دوبارہ پولنگ کا مطالبہ۔ سریش رانا، جو خود ایک مسل مین ہیں، اپنے مخالفین کی طرف سے غلط کھیل کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کیا کوئی اس پر یقین کر سکتا ہے؟


بوتھ پر قبضہ، دھاندلی اور بوگس ووٹنگ کے الزامات برسراقتدار پارٹیوں کی طرف سے شاذ و نادر ہی آتے ہیں، لیکن اس بار یوپی کی کہانی کچھ اور ہے۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو یقینی طور پر سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں بی جے پی کے لیے سب ٹھیک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے، اپنی بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ شکایات کی جا رہی ہوں یا بی جے پی کے لئے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ شہری بوتھوں پر ووٹروں کا کم ٹرن آؤٹ، بہت سارے اشتعال انگیزیوں کے باوجود مسلم ووٹروں نے جس صبر کا مظاہرہ کیا اور کسان برادریوں کے غلبہ والے بوتھ پر ٹرن آؤٹ بی جے پی کو پریشان کر رہا ہے۔

14 فروری کو ووٹنگ اتر پردیش کے اس حصے میں ہوئی جہاں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ بی جے پی خطے میں مسلم ووٹوں کی بڑی تقسیم کی امید کر رہی تھی۔ 55 نشستوں کے لیے 77 امیدوار میدان میں ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کمیونٹی نے حکمت عملی سے ووٹ کیا ہے۔ بجنور، مرادآباد، رام پور، امروہہ اور سنبھل میں، جہاں کمیونٹی نے سینکڑوں ریکوری نوٹسز دیکھے اور ہزاروں پر غنڈا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، مسلمانوں نے ماضی کی غلطیوں کو سنوارنے کی کوشش کی جب ان کے ووٹوں میں تقسیم سے بی جے پی کو جیتتے دیکھا ہے۔ انہوں نے صبر سے کام لیا اور اشتعال انگیزی پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے تبدیلی کے لئے SP-RLD اتحاد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔


جن نو اضلاع میں پولنگ ہوئی ان میں آٹھ روہیل کھنڈ اور ایک اپر دوآب سے ہے۔ ان نو اضلاع کی 55 نشستوں پر تقریباً 61 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ بی جے پی کے لیے یہ مایوس کن ہے، جب کہ سماج وادی پارٹی کی قیادت والا اتحاد امروہہ، سنبھل اور مرادآباد اضلاع میں کلین سویپ کی امید کر رہا ہے۔ حالانکہ چندوسی اور دھنورا میں بی جے پی مضبوط نظر آرہی ہے۔ بریلی میں، نتائج بی جے پی کو پریشان کر سکتے ہیں جہاں اس نے 2017 میں تمام 9 سیٹیں جیتی تھیں۔ بھوجی پورہ، فرید پور، میر گنج، نواب گنج، بہیدی اور آؤنلا میں سماج وادی پارٹی مضبوط نظر آرہی ہے۔ بریلی شہر، بریلی چھاؤنی اور بٹھاری چین پور میں دونوں پارٹیوں میں سخت مقانلہ نظر آ رہا ہے۔

شاہجہاں پور میں یوگی حکومت کے وزیر سریش کھنہ کو سخت لڑائی کا سامنا ہے، جب کہ تلہر، پویان، ددرول اور جلال آباد میں سماج وادی پارٹی کو مثبت نتائج کی امید ہے۔ رام پور میں بلاسپور دوبارہ کانگریس کے پاس جا سکتا ہے، جب کہ رام پور سٹی، سوار، چمراوا اور ملک سماج وادی پارٹی جیتنے کے لیے پراعتماد دکھائی دے رہی ہے۔ اسی طرح حسن پور، نوگاواں، امروہہ، سنبھل، اسمولی، گننور، سہسوان، چاند پور، نجیب آباد، برہانپور، نگینہ، نہٹور اور بجنور میں اتحاد مضبوط نظر آرہا ہے۔ شیخوپور اور بدایوں ایک سہ رخی لڑائی میں پھنس گیا ہے اور اسی طرح سہارنپور ضلع کی بیہاٹ اور ناگور سیٹیں ہیں۔


بی جے پی کے لیے کیا غلط ہوا ہے، جس نے دوسرے مرحلے کے 55 اسمبلی حلقوں میں سے 38 پر فتح حاصل کی تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ کسانوں کے احتجاج نے بجنور اور امروہہ اضلاع میں پارٹی کے امکانات کو برباد کر دیا ہے۔ لکھیم پور کھیری واقعہ نے قریبی شاہجہاں پور ضلع کے ووٹروں کو متاثر کیا ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے، مسلمانوں نے پولنگ بوتھوں پر سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران ریاست کی طرف سے تمام اشتعال انگیزیوں اور مظالم کا جواب دیا ہے۔ اس کے علاوہ، گوجر، موریہ اور سینی ووٹروں کا ایک بڑا حصہ SP-RLD کے حق میں جاتا دیکھ کر بی جے پی پریشان ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ ڈاکٹر یشویر سنگھ، مکھیا گجر، دھرم سنگھ سینی اور سوامی پرساد موریہ فیکٹر ہو سکتا ہے۔

اگرچہ، یہ محض قیاس آرائیاں ہیں، لیکن پہلے دو مرحلوں سے ملنے والے مضبوط اشاروں نے اتحاد کے رہنماؤں، حامیوں اور کارکنوں کو تقویت پہنچائی ہےاور وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ یوپی میں ووٹنگ کے ان دو دنوں کے دوران بنائی گئی رفتار کو اگلے دو مرحلوں تک برقرار رکھتے ہیں تو پھر اقتدار ان کی پہنچ میں نظر آ رہا ہے۔ انہیں صرف صبر، مستقل مزاجی اور اپنے سماجی اتحاد کو آخری دم تک سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے لیے اب اس اتحاد کا پیچھا کرنا ایک مشکل کام ہے جو بہت آگے لگتا ہے۔ اگر بی جے پی خود کو بحال کر سکتی ہے تو وہ اس کی اپنی جانی پہچانی چالوں سے ہو سکتی ہے لیکن یہ چالیں ابھی تک ناکام نظر آ رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Feb 2022, 12:11 PM