ہماچل سے گراؤنڈ رپورٹ: رواج کی نہیں راج بدلنے کی بات کر رہے ووٹر، متعدد مسائل پر بی جے پی سے ناراضگی
ووٹر مہنگائی، بے روزگاری، اگنی ویر، پرانی پنشن اسکیم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی جے رام ٹھاکر کی قیادت والی حکومت کی بدانتظامی پر اپنا فیصلہ دینے کے لیے بے چین ہیں۔ کانگڑا سے گراؤنڈ رپورٹ:
ہماچل پردیش کے اقتدار کا راستہ کانگڑا سے گزرتا ہے۔ گزشتہ 30 سالوں میں یہاں کے ووٹروں نے کسی ایک پارٹی کے حق میں اپنا واضح فیصلہ دے کر اس قول کو سچ ثابت کیا ہے۔ ان برسوں میں اقتدار کا سفر طے کرنے والی پارٹی کو کانگڑا کے ووٹروں نے کم از کم 9 ایم ایل اے دیئے ہیں۔ اس بار بھی کانگڑا بول رہا ہے۔
ہماچل پردیش میں 15 اسمبلی سیٹوں کے ساتھ ریاست کے سب سے بڑے ضلع کانگڑا کے ووٹروں کی بے باک رائے حکمرانی کی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ کانگڑا دیو بھومی کہی جانے والی اس ریاست کے ووٹروں کا اعصابی مرکز ہے، جو ہر 5 سال بعد ریاست کی طاقت میں تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں سے جس پارٹی کے حق میں واضح مینڈیٹ حاصل ہو جائے، ریاست کے اقتدار میں اسی کی تاجپوشی یقینی سمجھی جاتی ہے۔ ہماچل میں اس بار کانگڑا سے آنے والا اشارہ بی جے پی کے اہم لیڈران کے لیے خوش آئند نہیں ہے، جو رواج کو بدلنے کی بات کر رہی ہے۔ ووٹر تو یہاں راج بدلنے کی بات کر رہے ہیں!
شکتی پیٹھ جوالا جی کی بات کریں تو دیوی ماں کا آشیرواد لینے کے لیے قطار میں کھڑے عوام حکمران پارٹی کے لیڈروں کو یہاں عوام کا آشیرواد حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ پھل فروش امت شرما جوالا جی مندر کے باہر مہنگائی سے لے کر بے روزگاری تک کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوالا جی ایک مذہبی مقام ہے لیکن گزشتہ 5 سالوں میں یہاں تبدیلی کے نام پر کچھ نہیں ہوا۔ حکومت کا ایک بھی منصوبہ یہاں زمین پر نہیں اترا۔
ووٹر مہنگائی، بے روزگاری، اگنی ویر، پرانی پنشن اسکیم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی جے رام ٹھاکر کی قیادت والی حکومت کی بدانتظامی پر اپنا فیصلہ دینے کے لیے بے چین ہیں۔ کانگڑا ضلع کی سرحد میں داخل ہوتے ہی جھنڈے، بینر، پوسٹروں سے بھری ہوئیں سڑکیں اور انتخابی مہم کی گاڑیوں کا شور اس ضلع کی سیاسی اہمیت کی گواہی دیتا ہے۔
جوالاجی میں ایک دھرم شالہ کے مالک راج گروور کہتے ہیں کہ یہاں صورتحال ایسی ہے کہ ایک امیدوار بی جے پی کا ہے اور ایک آر ایس ایس کا۔ وہ چودھری اتل کوشل کے بارے میں بات کر رہے تھے، جو بی جے پی سے باغی ہو کر انتخاب لڑ رہے ہیں، انہیں سنگھ کا امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ راج گروور نے کہا کہ بی جے پی یہاں پوری طرح سے دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ دھومل کیمپ علیحدہ ہو چکا ہے اور جئے رام ٹھاکر کی کوئی نہیں سنتا۔ وزیراعلیٰ کی حالت ایسی ہے کہ 5 سال تک کوئی افسر ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ کورونا کے دور میں وزیراعلیٰ صبح کچھ اعلان کرتے تھے اور شام کو کچھ اور! اتنا کمزور وزیراعلیٰ کیا کر سکتا ہے؟
جوالاجی مندر میں پرساد بیچنے والے پرتاپ کمار بھی راج گروور کی بات پر مہر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جئے رام ٹھاکر نے 5 سالوں میں کچھ نہیں کیا۔ کانگڑا اسمبلی کے رانی تال کے ایک ہوٹل میں کام کرنے والے پرمود سنگھ کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء مہنگی، دالیں مہنگی، سلنڈر مہنگا، اس حکومت نے مہنگائی کے علاوہ اور دیا ہی کیا ہے! روزگار کے سوال پر پرمود سنگھ کہتے ہیں کہ حکومت نے سب کچھ ٹھیکیدار کو دے دیا ہے۔ محکمہ واٹر سپلائی ٹھیکے پر دے دیا اور محکمہ بجلی بھی ٹھیکے پر دے دیا۔ پہلے عام آدمی کو کوئی نہ کوئی کام مل جاتا تھا لیکن اب سب کچھ ٹھیکیدار کی صوابدید پر ہے۔
دہرہ اسمبلی سیٹ کے موہن لال بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب سے بی جے پی آئی ہے تمام محکموں میں کام نجی ہاتھوں میں سونپ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو ملنے والا روزگار ٹھیکیدار کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی فوج میں بھرتی اگنی ویر اسکیم پر سوال اٹھاتے ہوئے موہن لال کہتے ہیں کہ 4 سال میں تو ایک نوجوان فوج میں بھرتی ہونے کے بعد فوجی بن پاتا ہے اور یہ 4 سال میں اسے ریٹائر کر رہے ہیں! رام نریش کانگڑا ضلع کے ہیڈکوارٹر دھرم شالہ کے کچہری اڈہ میں بے باک انداز میں کہتے ہیں کہ ہماچل میں ہر 5 سال بعد حکومت بدلنے کا رواج چل رہا ہے۔
دھرم شالہ اسمبلی سیٹ میں واقع شکتی پیٹھ چامنڈا دیوی کے باہر پرساد بیچنے والے منیش کمار سوال پوچھتے ہی کہتے ہیں کہ یہاں ہر 5 سال بعد تبدیلی آتی ہے۔ روزگار کے سوال پر منیش کا کہنا ہے کہ پچھلے 5 سالوں میں ان کے کسی دور کے رشتہ دار کو بھی سرکاری نوکری نہیں ملی۔ فوج میں 4 سال کے لیے بھرتی کے لیے لائی گئی اگنی ویر اسکیم پر بھی منیش کو کافی اعتراض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے 4 سال بعد 21 لاکھ بھی مل جائیں تو بھی اس سے زندگی نہیں چلے گی۔
منیش نے کہا کہ اگنی ویر اسکیم کی وجہ سے پوری ریاست کے نوجوان اس حکومت سے ناراض ہیں۔ بیج ناتھ میں سبزی فروش ملکھان سنگھ مہنگائی کے سوال پر کہتے ہیں کہ ہر کوئی اس سے پریشان ہے۔ سبزی خریدنے والی مونیکا دھیمان نے بتایا کہ میرے والد کا بجلی محکمہ میں سروس کے دوران انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اہل خانہ ہمدردی کی نوکری کے لیے دفاتر جانے سے تنگ آ گئے۔ اب ہار ماننے کے بعد کوششیں بھی بند کر دی ہیں۔
’جس نے کانگڑا جیتا، اس نے ریاست جیت لی‘ یہ تقریباً 3 دہائیوں سے یہی چلا آ رہا ہے۔ 2017 میں بی جے پی نے کانگڑا میں 15 میں سے 11 سیٹیں جیتی تھیں۔ جس کے بعد ریاست میں بی جے پی نے حکومت بنائی اور جئے رام ٹھاکر وزیر اعلیٰ بنے۔ 2010 میں کانگریس نے یہاں 10 سیٹیں جیتی تھیں اور ویربھدر سنگھ نے چھٹھی بار وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا۔ 1993 سے کانگڑا نے بی جے پی یا کانگریس کو اقتدار میں بھیجا ہے۔ گزشتہ 30 سالوں سے کانگڑا کسی ایک سیاسی پارٹی کے حق میں واضح فیصلہ دے چکا ہے۔ اس بار بھی اشارے اسی سمت میں ہیں۔ کانگڑا ضلع میں تقریباً 34 فیصد آبادی راجپوت برادری، 32 فیصد او بی سی اور 20 فیصد برہمن ہیں۔ بی جے پی نے کانگڑا سے ایک بھی برہمن امیدوار کھڑا نہیں کیا، جس کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔
مونیکا دھیمان کا کہنا ہے کہ مہنگائی تو ہے لیکن اس کے علاوہ حکومت نے 5 سال میں کیا کیا؟ ملکھان سنگھ اور مونیکا دونوں نے کہا کہ رواج نہیں بلکہ راج تبدیل ہونا چاہئے، اسی سے مسائل کچھ حل ہو سکیں گے۔ ایسی آوازیں کانگڑا کے کونے کونے سے آرہی ہیں۔ لوگ نہ صرف اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال حکمران جماعت کو بے چین کر رہی ہے۔
بی جے پی کے سابق ریاستی نائب صدر کرپال پرمار کانگڑا ضلع کی فتح پور سیٹ پر جے رام حکومت میں وزیر جنگلات رہنے والے راکیش پٹھانیا کو ہرانے کے لیے میدان میں ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بات بھی ٹھکرا دی ہے۔ کرپال پرمار کا دعویٰ ہے کہ وہ راکیش پٹھانیا کو یہاں سے مالویکا پٹھانیا کے طور پر بھیجیں گے۔ دیہرا سیٹ پر موجودہ ایم ایل اے ہوشیار سنگھ ٹھاکر بی جے پی امیدوار رمیش دھوالا سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہوشیار سنگھ کچھ عرصہ قبل بی جے پی میں شامل ہوئے تھے لیکن ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ایک بار پھر 'آزاد' امیدوار کے طور پر میدان میں کود پڑے ہیں۔ انہوں نے 2017 میں اسی سیٹ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ منوہر دھیمان نے اندورا سیٹ پر پارٹی امیدوار ریتا دھیمان کے سامنے محاذ کھول دیا ہے۔ کانگڑا سیٹ پر کلبھاش چودھری پون کاجل کے لیے مسئلہ بن گئے ہیں۔ سنجے پراشر جسواں-پراگ پور میں وکرم ٹھاکر کے خلاف کھڑے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔