’مہاراشٹر سے لے کر یوپی اور چھتیس گڑھ تک نظامِ قانون تباہ‘، بی جے پی حکومت پر کانگریس کا سخت ترین حملہ

کانگریس نے سوال کیا کہ کیا پولیس انتظامیہ اتنا ناکارہ ہے کہ ناک کے نیچے تشدد و قتل ہو جاتا ہے اور وہ کچھ نہیں کر رہی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حاکموں کے اشارے پر پولیس فرقہ وارانہ فساد کو فروغ دے رہی ہے؟

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

اس وقت ملک کی کچھ ریاستوں میں حالات کشیدہ ہیں۔ تشدد کے واقعات پیش آ رہے ہیں اور پولیس انتظامیہ بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اتر پردیش کے بہرائچ میں قتل واقعہ کے بعد حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ انٹرنیٹ تک بند کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ چھتیس گڑھ کے سورج پور میں ایک ہیڈ کانسٹیبل کی بیوی اور بیٹی کا بے رحمی سے قتل کیے جانے کے بعد لوگوں کا اشتعال عروج پر ہے۔ اس سے قبل مہاراشٹر میں بابا صدیقی کا برسرعام قتل کر دیا گیا تھا۔ اس طرح کے حالات پر کانگریس نے انتہائی فکر کا اظہار کیا ہے اور بی جے پی پر تلخ ترین حملہ کیا ہے۔

کانگریس نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر پارٹی ترجمان سپریا شرینیت کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ نہ صرف مرکزی و بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومتوں کو ہدف تنقید بنا رہی ہیں، بلکہ کئی چبھتے ہوئے سوالات بھی پوچھ رہی ہیں۔ وہ کہتی نظر آ رہی ہیں کہ ’’مہاراشٹر سے لے کر اتر پردیش اور چھتیس گڑھ تک، نظامِ قانون پوری طرح سے دم توڑ چکی ہے۔ مہاراشٹر میں دن دہاڑے جیل میں قید مجرم ایک سیاسی لیڈر، جو کہ برسراقتدار پارٹی سے جڑا ہوا تھا، کا قتل کرا دیتا ہے۔ اتر پردیش میں مورتی وِسرجن کے جلوس کے دوران تشدد بھڑک اٹھتا ہے۔ چھتیس گڑھ میں عوام ایس ڈی ایم کو مارنے کے لیے سرعام دوڑاتی ہے۔ یہ جنگل راج نہیں تو کیا ہے؟‘‘


سپریا شرینیت یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ آخر اس طرح کا ماحول کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ وہ ویڈیو میں پوچھتی ہیں کہ ’’سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ نفرت کی آگ کس نے اور کیوں پھیلائی؟ یہ بچے جو فرقہ واریت کی بَلی چڑھ رہے ہیں، ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا پولیس انتظامیہ اتنا ناکارہ اور نامرد ہو گیا ہے کہ اس کی ناک کے نیچے تشدد و قتل ہو جاتا ہے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی ہے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پولیس حاکموں کے اشارے پر فرقہ وارانہ فسادات کو فروغ دے رہی ہے؟‘‘

کانگریس ترجمان نے بی جے پی کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میڈیا کا تو کیا ہی کہنا؟ ان گودی گدھوں کے منھ سے مہاراشٹر سے لے کر اتر پردیش اور چھتیس گڑھ کے لیے جو ایک لفظ نہیں نکلا وہ ہے ’جنگل راج‘۔ ٹی وی پر پولیس انتظامیہ کی ذمہ داری طے کی گئی، لیکن مجال ہے کہ اسکرین پر یوگی آدتیہ ناتھ، ایکناتھ شندے اور وشنو دیو سائے کی تصویر تک دکھائی گئی ہو... ان کا استعفیٰ مانگنا تو بہت دور کی بات ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’نفرت میں جھلسنے سے پہلے ایک بار سوچیے گا کہ یہ لیڈران جو آپ کے بچوں کو مذہب کا خود ساختہ محافظ بنا کر ان کے ہاتھوں میں طمنچے، تلواریں تھما رہے ہیں، ان کے خود کے بچے امریکہ، یوروپ کی بڑی بڑی یونیورسٹی میں پڑھ کر موٹا مال کما رہے ہیں۔‘‘


سپریا شرینیت پورے ویڈیو پیغام میں کئی سوالات اٹھاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ وہ یہ بھی پوچھتی ہیں کہ ’’آخر کون ہے جو چاہتا ہے کہ جلتی بستیوں پر اس کی نفرت کی روٹیاں سیکی جاتی رہیں؟ آخر کب تک فرقہ واریت کی آگ میں بے قصور لوگوں کے گھر جل کر خاک ہوتے رہیں گے؟ کون اس ملک کے نوجوانوں کو بے روزگار رکھ کر ڈرگس کے نشے میں جھونک کر ان کے ہاتھوں میں غیر قانونی اسلحے پکڑا کر ان کو شرپسند بنا رہا ہے؟‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’تازہ مثال مہاراشٹر سے ہے، جہاں محض 50 ہزار روپیوں میں بابا صدیقی کا قتل کرنے کے لیے غریب گھروں کے لڑکوں کو بھیجا گیا اور ان کی زندگی برباد ہو گئی۔‘‘ پھر آخر میں عوام سے وہ اپیل کرتی ہیں کہ ’’آپ سبھی سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے، نفرت کے اس گندے کھیل کو سمجھیے اور اسے شکست دینے کے لیے متحد ہو جائیے۔ اب ہم ملک کا مزید نقصان نہیں ہونے دے سکتے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔