سی اے اے-این آر سی مظاہرین پر یوگی حکومت کی کارروائی ایک سال بعد بھی جاری

لکھنؤ کے سماجی کارکنان کو سی اے اے مخالف مظاہروں کے ایک سال بعد بھی ریاست کی یوگی حکومت کے ذریعہ ظلم کا شکار بنایا جا رہا ہے۔کئی لوگوں پر کیس کے بعد اب قرقی کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرہ کا مشہور چہرہ رہی سمیہ رانا کے گھر کے باہر یوپی پولس نے ایک نوٹس چسپاں کیا ہے۔ مشہور شاعر منور رانا کی بیٹی سمیہ نے گھنٹہ گھر پر سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرہ کی قیادت کی تھی، جسے لے کر سمیہ رانا کے خلاف اب تک 3 مقدمے درج کیے گئے ہیں

سمیہ بتاتی ہیں کہ اب ان کی زندگی کی ہر سانس پر حکومت کی نگرانی ہے۔ راجدھانی میں جب بھی کوئی دھرنا و مظاہرہ جیسی ہلچل ہوتی ہے، پولس میرے گھر آ کر بیٹھ جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے لگتا ہے کہ میرے ہر عمل پر حکومت کی نظر رہتی ہے۔ میرے فون سنے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی خاتون اسمبلی کے پاس دھرنا دینے کا اعلان کر دے تو پولس میری نظربندی کرتی ہے۔ میری آزادی پر پہرہ ہے اور میری زندگی سرویلانس کے گھیرے میں ہے۔‘‘


سی اے اے مخالف مظاہرہ کے دوران ہی جیل بھیجے گئے ایک دیگر نوجوان شان بتاتے ہیں کہ اپنی بات کہنا گناہ ہو گیا ہے۔ وہ جو کچھ کر رہے تھے غیر آئینی نہیں تھا، لیکن اب مقامی پولس لگاتار انھیں مانیٹر کرتی ہے۔ شان کا کہنا ہے کہ ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

سی اے اے-این آر سی مظاہرین پر یوگی حکومت کی کارروائی ایک سال بعد بھی جاری

لکھنؤ پولس اس وقت 11 لوگوں سے 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی وصولی میں مصروف ہے۔ یہ سبھی وہ لوگ ہیں جو 19 دسمبر کے لکھنؤ مظاہرہ میں مبینہ طور پر شامل تھے۔ اس دوران تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا۔ سابق ریاستی وزیر یامین خان بتاتے ہیں کہ ان میں ایک رکشہ ڈرائیور کا بھی نام ہے۔ لکھنؤ انتظامیہ نے اس واقعہ میں سابق آئی جی ایس آر داراپوری، مولانا سیف عباس، محمد شعیب جیسے نام بھی شامل کیے ہیں۔


راجدھانی لکھنؤ میں گزشتہ سال دسمبر میں سی اے اے-این آر سی کے خلاف مظاہرہ کے بعد ایک سال گزر گئے ہیں لیکن یوگی حکومت کا مظاہرین کے خلاف کارروائی اب تک جاری ہے۔ اس تشدد میں سرکاری ملکیت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں لکھنؤ پولس کئی لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے اور جیل بھیج چکی ہے۔ علاوہ ازیں کئی ملزمین کی ملکیت قرق کر کے نقصان کا ازالہ بھی کیا گیا ہے۔ اسی تعلق سے کمشنریٹ پولس نے مظاہرین کے پوسٹر جگہ جگہ لگوائے ہیں۔ مظاہرہ میں شامل ایک شخص کے والد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ مظاہرہ میں شامل رہے لوگوں، جن کو تشدد کا ملزم بنایا گیا ہے، کے گھروں کے باہر ڈگڈگی بجوا کر نوٹس چسپاں کیا گیا ہے۔

پولس اور انتظامیہ کے ذریعہ لگاتار سی اے اے-این آر سی مخالفین کا استحصال جاری ہے۔ کبھی آدھی رات کو سی اے اے-این آر سی مخالفین کے گھر پولس پہنچ جاتی ہے تو کبھی آدھی رات کو کسی مظاہرہ کرنے والے کے گھر سے اس کے والد کو زبردستی اٹھا لیا جاتا ہے، تو کبھی سی اے اے مخالف مظاہرین کے پوسٹر لگوا دیے جاتے ہیں، اور کبھی تشدد کے ملزمین مظاہرین کے گھروں کے باہر نوٹس چسپاں کیا جاتا ہے۔


ابھی حال ہی میں سماجی کارکن زینب صدیقی کے والد نعیم صدیقی کو لکھنؤ پولس نے گرفتار کیا تھا۔ زینب صدیقی نے پولس پر والد کے ساتھ مار پیٹ کا الزام لگایا ہے۔ زینب نے یہ بھی الزام لگایا کہ جب ان کے بھائی اور بہن والد نعیم صدیقی کو چڑھوانے حسن گنج تھانہ پہنچے تو پولس ان کے ساتھ بھی مار پیٹ کی۔ زینب صدیقی لکھنؤ میں ایک این جی او میں کام کر رہی ہیں اور لکھنؤ میں گزشتہ سال ہوئے سی اے اے-این آر سی مظاہرہ میں سرگرم طور پر شامل رہی تھیں۔ زینب بتاتی ہیں کہ 5 نومبر کو پولس کے ذریعہ ان کے گھر پر چھاپہ ماری کی گئی اور اہل خانہ کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔

سی اے اے-این آر سی مظاہرین پر یوگی حکومت کی کارروائی ایک سال بعد بھی جاری

لکھنؤ کے گھنٹہ گھر مظاہرہ میں شامل رہنے والی عظمیٰ پروین بھی حکوکمت کی آنکھوں میں چبھتی رہی ہیں۔ عظمیٰ پروین سمیت ان کی فیملی پر فرضی مقدمے کیے گئے۔ دیر رات پولس کو ان کے گھر پر بھیج کر پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ عظمیٰ پر بھی لکھنؤ تشدد میں شامل رہنے کا الزام ہے۔ عظمیٰ پروین اور ان کی فیملی کو پولس کے ذریعہ کبھی نظربند کر لیا جاتا ہے تو کبھی دیر رات ان کے گھر پولس بھیجی جاتی ہے۔


صدف جعفر کے ساتھ بھی لکھنؤ پولس کا سخت رویہ جاری ہے۔ صدف گزشتہ کئی سال سے کانگریس سے بھی منسلک ہیں۔ گزشتہ سال لکھنؤ تشدد ہوا تھا تو اس وقت صدف فیس بک لائیو چلا رہی تھیں اور پولس انتظامیہ کو وہاں کے حالات کے بارے میں مطلع کرا رہی تھیں، لیکن پولس کے ذریعہ صدف جعفر کو ہی گرفتار کر ان پر لکھنؤ تشدد کا الزام لگا دیا گیا جس میں صدف 19 دن جیل میں رہیں۔

صدف بتاتی ہیں کہ خاتون ہونے کے باوجود ان کو مرد پولس اہلکاروں کے ذریعہ پیٹا گیا اور ظلم ڈھایا گیا۔ خاتون پولس اہلکاروں کے ذریعہ انھیں پاکستانی بھی کہا گیا۔ دو بچوں کی ماں صدف جیل سے باہر آنے کے بعد بھی حکومت کی آنکھوں میں چبھ رہی ہیں۔ حکومت کے ذریعہ ان کی تصویروں پر مبنی پوسٹر لکھنؤ کے چوراہوں پر چسپاں کیے گئے ہیں اور انھیں لکھنؤ تشدد کے الزام میں گھر کی قرقی کا نوٹس بھی تھمایا گیا ہے۔

سی اے اے-این آر سی مظاہرین پر یوگی حکومت کی کارروائی ایک سال بعد بھی جاری

اسی طرح ایس آر داراپوری 2003 میں سبکدوش ہونے کے بعد سے حقوق انسانی پر کام کرتے رہے ہیں۔ داراپوری حقوق انسانی، حقوق نسواں، قبائل، دلتوں اور اقلیتوں سے جڑی سماجی تحریکوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ 19 دسمبر کو لکھنؤ میں ہوئے تشدد کے الزام میں داراپوری کو بھی گرفتار کر جیل بھیجا گیا تھا اور 19 دن جیل میں رہنے کے بعد داراپوری کی ضمانت ہوئی تھی۔ جیل سے نکلنے کے بعد داراپوری نے بھی پولس پر مظالم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ایس آر داراپوری کا بھی لکھنؤ پولس کے ذریعہ پوسٹر شہر کے مختلف چوراہوں پر لگوایا گیا ہے اور انھیں بھی قرقی کا نوٹس دے کر پریشان کیا گیا ہے۔

72 سالہ بزرگ محمد شعیب ’رہائی منچ‘ نامی سماجی ادارہ کے سربراہ ہیں۔ محمد شعیب کو 18 دسمبر 2019 کو حضرت گنج پولس کے ذریعہ ان کے گھر سے گرفتار کر نظربند کیا گیا تھا۔ جس وقت لکھنؤ میں تشدد ہو رہا تھا، اس وقت شعیب پولس کے ذریعہ نظربند تھے۔ لیکن پولس کے ذریعہ انھیں لکھنؤ تشدد میں شامل ہونا بتایا گیا اور تشدد کا فرضی الزام لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔


سی اے اے-این آر سی مظاہرین پر یوگی حکومت کی کارروائی ایک سال بعد بھی جاری

سوال یہ ہے کہ جو آدمی نظربند ہو وہ تشدد میں شامل کیسے ہو سکتا ہے۔ شعیب کے جیل سے آزاد ہونے کے بعد بھی انتظامیہ کے ذریعہ ان کا استحصال جاری ہے۔ لکھنؤ پولس کے ذریعہ ایک 72 سالہ بزرگ کی تصویر تشدد کے ملزم کی شکل میں چسپاں کیا گیا اور گھر قرقی کا نوٹس تھما کر استحصال کیا گیا۔

لکھنؤ کے سماجی کارکنان کو سی اے اے مخالف مظاہروں کے ایک سال بعد بھی ریاست کی یوگی حکومت کے ذریعہ پریشان کیا جا رہا ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے جن لوگوں کی تصویریں پوسٹر میں لگا کر لکھنؤ تشدد کا الزام عائد کیا ہے، ان میں مرحوم شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق کے بیٹے سبطین نوری کا بھی نام شامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔