حکومت نے کسانوں کی بات نہیں سنی تو بن سکتے ہیں ’پگڑی سنبھال جٹّ‘ جیسے حالات

مرکزی حکومت کو کسانوں کے مطالبات پر جلد ہی غور کر کے اس کا حل نکالنا چاہیے کیونکہ کسانوں کا غصہ اب بڑھتا جا رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک میں ایک بار پھر ’پگڑی سنبھال جٹّ‘ تحریک کی شروعات ہو جائے۔

تصویر گیٹی ایمج
تصویر گیٹی ایمج
user

اشونی کمار

زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تیز ہوتی تحریک، ان کا بڑھتا غصہ اور ان کی آنکھوں سے ٹپکتی الگ تھلگ چھوڑ دینے کی تکلیف ملک میں بڑھتی ناراضگی کی بے مثال کہانی ہے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت جو لوگوں کے جذبات کو سمجھتی ہو، اس حالت کو شروعات میں ہی کسانوں کے ساتھ بامعنی مذاکرہ اور بات چیت کے ذریعہ ٹال سکتی تھی۔ لیکن حکومت نے اس کی جگہ نومبر کے آخری ہفتہ کی سردی میں ملک کے کسانوں پر آنسو گیس کے گولے اور آبی توپوں سے حملہ کر دیا۔

پرامن طریقے سے احتجاجی مظاہرہ کر رہے کسانوں پر سرکاری طاقت کا استعمال ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جمہوریت کا پہلا ہی اصول یرغمال بنا ہوا ہے اور کسانوں کی آزادی اور وقار خطرے میں ہے۔ دیوار پر لکھی عبارت صاف ہے۔ اگر مسئلہ کا ایسا حل جلد نہیں نکایا گیا جس سے کہ کسان مطمئن ہوں تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ داخلی استحکام اور ملک کی سیکورٹی کے لیے خطرہ کھڑا کر دیں گے۔


مرکزی حکومت کو اسے وقار کا سوال بنانے کی جگہ متنازعہ زرعی قوانین کو معطل کر دینا چاہیے اور ان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے جن کے فائدے کے لیے ان قوانین سے دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ عجیب سی حالت ہے کہ حکومت جن زرعی قوانین کو کسانوں کے لیے فائدہ مند بتا رہی ہے، وہی کہہ رہے ہیں کہ اس سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ پھر بھی حکومت انھیں تھوپنا چاہتی ہے۔ ملک کے جذبات اس وقت کسانوں کے ساتھ ہیں، جو سیدھا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان قوانین کو واپس لیا جائے۔

یقینی طور پر ہم آزاد ملک میں ایسا لمحہ نہیں چاہتے ہیں جس میں ’پگڑی سنبھال جٹّ‘ کا نعرہ لگے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ بہت ہی شرمناک ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔