اب یوپی میں ہوگی ورچوئل لڑائی، بی جے پی اور کانگریس کے پاس ہے ٹرینڈ ٹیم

سماجوادی پارٹی نے کہا کہ بی جے پی اس پلیٹ فارم پر خود کو اس لیے مضبوط دکھا رہی ہے کیونکہ اس کے پاس وسائل اور پیسے کی کمی نہیں ہے، وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ کو متاثر کر سکتی ہے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

سماجوادی پارٹی کے گوتم پلی واقع دفتر سے آج پہلی ورچوئل ریلی کا آغاز کیا گیا۔ اس ریلی کو خطاب کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے بڑے لیڈر امبیکا چودھری نے صوبے کی بی جے پی حکومت کی ناکامیوں کو ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ ریلی کے پہلے سماجوادی پارٹی کے سبھی کارکنان کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ آن لائن وسائل کے ذریعہ سے اپنے لیڈر کے ویڈیو لنک کو تمام دوستوں، رشتہ داروں کو شیئر کریں۔

سماجوادی پارٹی کو اس ریلی کا اچھا رِسپانس ملا۔ ان کے کارکنان نے اسے شیئر کرنے میں دم لگا دیا۔ کورونا کے سبب بھیڑ کی تمام پابندیوں کے درمیان ورچوئل ہو رہی انتخابی تشہیر میں بی جے پی اور کانگریس کی بہ نسبت کم تربیت یافتہ مانی جا رہی سماجوادی پارٹی کے لیے یہ ایک اچھا دن تھا۔ دراصل یہ ایک ٹرائل تھا جسے اکھلیش یادو کی ورچوئل ریلی سے پہلے رِسپانس دیکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

سماجوادی پرٹی کے ڈیجیٹل میڈیا کوآرڈینیٹر منیش جگن اگروال نے ہمیں بتایا کہ بی جے پی کے پاس ایک بڑی آئی ٹی ٹیم ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کی وِل پاور سماجوادیوں سے بڑی نہیں ہے۔ ہمارے لیڈر اکھلیش یادو تکنیکی طور پر جانکار ہیں، وہ اس شعبہ میں مضبوط ہیں۔ بی جے پی اس پلیٹ فارم پر خود کو اس لیے مضبوط دکھا رہی ہے کیونکہ ان کے پاس وسائل اور پیسے کی کمی نہیں ہے۔ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ کو متاثر کر سکتی ہے۔ موبائل کمپنی کے مالکان سے ان کا رابطہ ہے۔ لیکن وہ اتر پردیش کی عوام کے دلوں کو نہیں بدل سکتے ہیں جو کہ اس حکومت کی منمانی سے پریشان ہے۔ سماجوادی پارٹی کی آج کی ورچوئل ریلی کی کامیابی نے یہ ثابت کر دیا ہے۔

اتر پردیش میں ورچوئل ہو رہی انتخابی تشہیر میں انتخاب کا ایک الگ انداز دکھائی پڑ رہا ہے۔ ڈیجیٹل انتخابی تشہیر کو لے کر ریاست میں کانگریس پارٹی سب سے زیادہ خوش دکھائی دیتی ہے۔ کانگریس کے اسٹیٹ سوشل میڈیا کوآرڈینیٹر منوج سنگھ کہتے ہیں کہ کانگریس قومی پارٹی ہے اور انتخاب لڑتی رہتی ہے۔ ہم ڈیجیٹل الیکشن کو لے کر ذہنی اور زمینی دونوں طریقے سے تیار تھے۔ ہماری لیڈر پرینکا گاندھی کو اس کا اندازہ تھا اور اسی لیے ’تربیت سے مضبوطی کی طرف‘ عنوان سے ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں 2 لاکھ والنٹیر کو ٹرینڈ کرایا گیا۔ اس کے لیے ایک بے حد تربیت یافتہ ٹرینر ٹیم تھی۔ باقاعدہ اس کے بعد ہمارے ’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم سے بھی فائدہ ہوا۔ اب ہم 70 ہزار وہاٹس ایپ گروپ اور 2 کروڑ فون نمبر کے ذریعہ سے اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ ان سے ہم سیدھے جڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے لیڈر ورچوئل ڈائیلاگ کر رہے ہیں۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

منوج سنگھ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بڑی سوشل میڈیا ٹیم ہے۔ ان میں 17 ہزار تربیت یافتہ کارکنان ہیں۔ 1500 تو صرف عہدیدار ہیں۔ انھیں سوشل میڈیا کے لیے ٹرینڈ کیا گیا ہے۔ کانگریس کو گزشتہ پانچ سال میں عوام کے لیے سیدھے لڑائی لڑنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ ہم سے جڑ گئے ہیں۔ اس دوران ایک ٹرینر رہی رفعت فاطمہ بتاتی ہیں کہ وہ اس تربیت کے دوران بارابنکی کی ٹرینر تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا کے استعمال اور صحیح اطلاعات کو پہچاننے کی صلاحیت پر کام کر رہے تھے۔ ساتھ ہی کانگریس اور ہمارے لیڈر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ویژن پر بات کرتے تھے اور اسے مشتہر کرنے کے لیے ڈیجیٹل تکنیک کے بہتر استعمال پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔

بی جے پی بھی ورچوئل ریلی کے اس دور میں پراعتماد دکھائی دیتی ہے۔ لکھنؤ میں ہی بی جے پی سوشل میڈیا اسٹریٹجسٹ راجیش شرما بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے پاس سبھی ضلعوں میں آئی ٹی کنوینر ہیں۔ پارٹی 100 سے زیادہ ورچوئل ریلی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس کے لیے ایک نئی تکنیک 30 اسٹوڈیو میکس کا استعمال کیا جائے گا۔ اس میں الگ الگ بیٹھے ہوئے لیڈروں کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی ڈیجیٹل رتھ چلانے جا رہی ہے۔ اس میں بڑے بی جے پی لیڈروں کے قبل میں دی گئی تقریروں کی ریکارڈنگ سنوائی جائے گی۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی ڈیجیٹل انتخابی تشہیر کی کمان وزیر داخلہ امت شاہ سنبھال رہے ہیں۔ حال ہی میں لکھنؤ میں وہ اس پر تبادلہ خیال کر کے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے پاس تقریباً 50 اضلاع میں آئی ٹی دفتر ہے۔ بی جے پی کے پارٹی دفتر میں اس کے لیے ایک کمرہ محفوظ ہے جہاں ایک آئی ٹی ٹیم بیٹھتی ہے۔ یہاں سبھی اسمبلی کا ڈاٹا ہے۔


یہ بات درست ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے معاملے میں سماجوادی پارٹی دوسری پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس سے کمزور نظر آتی ہے، تو بہوجن سماج پارٹی اور دیگر پارٹیاں تو کہیں دکھائی بھی نہیں دے رہی ہیں۔ بی ایس پی کا ڈیجیٹل وِنگ سب سے کمزور ہے۔ بی ایس پی کے سوشل میڈیا ایگزیکٹیو گورو جاٹو بتاتے ہیں کہ بی ایس پی کا کیڈر سب سے مضبوط ہے۔ ہماری پارٹی محروموں، پسماندوں اور دلتوں کی بات کہتی ہے اور ان کی لڑائی لڑتی ہے۔ گورو جاٹو آگے کہتے ہیں کہ ابھی ہم روٹی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسمارٹ فون کی دنیا الگ ہے۔ اس ڈیجیٹل تکنیک سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ جسے جہاں ووٹ دینا ہے وہ من بنا چکا ہے۔ حال ہی میں تمام پڑھائی آن لائن ہوئی، مگر گھر گھر تعلیم کا معیار حاصل نہیں ہوا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بی ایس پی کے لوگ سوشل میڈیا پر کمزور ہیں، ہمارا سوشل میڈیا بھی کافی مضبوط ہے۔ بہن جی اس پر بہت سرگرم ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ڈیجیٹل مہم کوئی اثر ڈال سکتا ہے۔

سیاسی پارٹیاں اپنے ڈیجیٹل تشہیری نظام کو کیسے چلا رہی ہیں، اس کی بانگی میرٹھ کے نوجوان ششانک شرما دکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں تین دن پہلے مجھے مظفر نگر ضلع کے بی جے پی امیدوار کا فون آیا، میں انجینئر ہوں اور منصور پور میں ملازمت کرتا ہوں۔ میرے موبائل اسکرین پر ایک وی آئی پی نمبر دکھائی دیا۔ فون کرنے والے نے بتایا کہ وہ فلاں بی جے پی امیدوار کے یہاں سے بات کر رہے ہیں اور وہ امیدوار آپ کے علاقے میں کل آ رہے ہیں۔ برائے کرم آپ وہاں موجود رہیں۔ میں حیران تھا کہ میں میرٹھ میں رہتا ہوں اور منصور پور میں ملازمت کرتا ہوں، جو کھتولی اسمبلی میں ہے۔ مظفر نگر کی میراپور اسمبلی کا امیدوار مجھے کیوں فون کر رہا ہے۔ ششانک بتاتے ہیں کہ ان کی پیدائش میراپور میں ہوئی ہے، یکن ووٹر میرٹھ کے ہیں۔ آخر ان کے پاس یہ ڈاٹا آیا کہاں سے۔


ایک دیگر نوجوان لکھنؤ کے عبدالحنان بتاتے ہیں کہ ان کے وہاٹس ایپ گروپ پر روزانہ بی جے پی حکومت سے جڑے پیغامات آتے ہیں۔ انھیں درجنوں وہاٹس ایپ گروپ سے جوڑا گیا ہے جن میں بی جے پی کی تشہیر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اے آئی ایم آئی ایم کے گروپ ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے بھی کچھ گروپ ہیں، کانگریس بھی سرگرم ہے، بی ایس پی کافی کمزور ہے لیکن بڑی بات یہ ہے کہ بی جے پی مجھے بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ متاثر کرنا چاہتی ہے۔

میرٹھ کے ششانک شرما بتاتے ہیں کہ کوئی کسی سے متاثر نہیں ہو رہا ہے، جو جہاں ہے وہ وہیں ہے۔ ششانک کا کہنا ہے کہ ان کے ایک دوست کو ایک لڑکی نے فون کیا جو بی جے پی کی خوب تعریف کر رہی تھی۔ میرے ساتھی نے اس کا خوب ٹائم خراب کیا اور کسانوں کے ایشوز پر تبادلہ خیال کیا، آخر میں لڑکی نے فون کاٹ دیا۔ عوام کا ذہن پہلے سے تیار ہے، اب وہ بدلنے والا نہیں۔ جو جہاں ہے، وہیں رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔