دہلی فسادات: دہلی ہائی کورٹ نے مسلم نوجوان کی موت سے متعلق جانچ سی بی آئی کے حوالے کی
عدالت نے کہا کہ فیضان پر حملہ کرنے والے مشتبہ افراد (پولیس افسران) کو بخشا گیا ہے، یہ واقعہ نفرت انگیز جرم کے زمرہ میں آتا ہے اور پھر بھی پولیس کی جانچ دھیمی اور ادھوری رہی ہے۔
دہلی فسادات کے دوران پولیس کے ذریعہ مبیہن طور پر پیٹے جانے اور قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کیے گئے مسلم نوجوان کی موت سے متعلق جانچ کا معاملہ اب سی بی آئی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے فروری 2020 میں 23 سالہ فیضان کی موت کی سی بی آئی جانچ کا حکم صادر کر دیا ہے۔ مہلوک فیضان کو دہلی فسادات کے دوران مبینہ طور پر دہلی پولیس کے ذریعہ لاٹھیوں سے پیٹا گیا تھا اور بعد میں اس کی موت ہو گئی تھی۔
جسٹس انوپ جئے رام بھمبھانی نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جانچ دہلی پولیس سے لے کر سی بی آئی کے حوالے کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ واقعہ نفرت انگیز جرم کے زمرہ میں آتا ہے اور پھر بھی پولیس کی جانچ دھیمی اور ادھوری رہی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ فیضان پر حملہ کرنے والے مشتبہ افراد (پولیس افسران) کو بخشا گیا ہے۔ عدالت کے مطابق اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ مشتبہ (پولیس افسران) کو قانون کے محافظ کی شکل میں کام کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ وہ طاقت اور اختیار کی حالت میں تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ سخت گیر ذہنیت سے متاثر تھے۔ عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ دہلی پولیس کی جانچ اعتماد پیدا نہیں کرتی ہے، اس معاملے میں اب تک کی اس کی کارروائی بہت دھیمی رفتار سے اور بہت کم کی گئی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس سے اس معاملے کی جانچ کا اختیار لینے کی وجہ یہ بھی ہے کہ قانون کے محافظوں پر خود اس کی خلاف ورزی کرنے کا الزام ہے۔ جرم کے مجرم خود اس ایجنسی کے رکن ہیں جو جو ان کی جانچ کر رہی ہے۔ یہ صورت حال بھروسہ پیدا نہیں کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دہلی پولیس کے ذریعہ اب تک کی گئی جانچ میں کئی خامیاں اور بے ضابطگی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس لیے کورٹ نے اس جانچ کی ذمہ داری ٹرانسفر کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ سی بی آئی ایف آئی آر میں کوئی دیگر جرم جوڑ سکتی ہے، اگر ایسا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔
سماعت کے دوران مہلوک فیضان کی ماں قسمتن کی طرف سے پیش وکیل ورندا گروور نے دلیل پیش کی کہ فیضان کی موت کے معاملے میں دہلی پولیس کی جانچ صرف ایک سمت میں آگے بڑھی ہے۔ جیوتی نگر کے ایس ایچ او کے کردار کی جانچ کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ہے، جہاں فیضان پر حملہ کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ کری نگر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اور افسر ریکارڈ میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں اور پھر بھی وہ پولیس اہلکا رجانچ کے دائرے سے باہر ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ معاملے کی جانچ ہمیشہ کے لیے چل سکتی ہے اور جب تک عدالت کی نگرانی میں جانچ نہیں کی جاتی، تب تک یہ جانچ کبھی ختم نہیں ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔