یوگی کے دورے سے قبل ’ڈیمیج کنٹرول‘ کی کوشش، وزیر کے بھائی کا اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے استعفی

ارون دیویدی نے کہا کہ میرے لئے بڑے بھائی ستیش کے سماجی اور سیاسی وقار سے زیادہ اہم کوئی نہیں ہے۔ اس تقرری کے لئے میں نے ضروری طریقہ کار پر عمل کیا تھا اور میرے بھائی کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سدھارتھ نگر کا دورہ کرنے سے ایک روز قبل صوبہ کے وزیر برائے بنیادی تعلیم ستیش دیویدی کے بھائی ارون دیویدی نے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ ارون کی تقرری سدھارتھ یونیورسٹی میں ای ڈبلیو ایس (معاشی طور پر کمزور طبقہ) کے کوٹے میں ہوئی تھی۔ اس معاملہ پر حزب اختلاف یوگی حکومت پر حملہ آور تھی اور بی جے پی جواب دینے سے قاصر نظر آ رہی تھی۔

استعفی پیش کرنے کے بعد ارون دیویدی نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے ان کے بھائی پر بیجا الزامات عائد کیے جائیں۔ انہوں نے کہا ’’میرے لئے بڑے بھائی ستیش دیویدی کے سماجی اور سیاسی وقار سے زیادہ اہم کوئی اور چیز نہیں ہے۔ اس تقرری کے لئے میں نے ضروری طریقہ کار پر عمل کیا تھا اور میرے بھائی کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘


خیال رہے کہ ستیش دیویدی سدھارتھ نگر کی ایٹوا سیٹ سے 2017 میں پہلی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے سماجوادی پارٹی کے دور اقتدار میں اسپیکر رہے ماتا پرساد پانڈے کو ہرایا اور انعام کے طور پر انہیں یوگی حکومت میں وزیر مملکت (آزادانہ چارج) بنایا گیا۔

تقرری پر تنازعہ کیوں کھڑا ہوا؟

وزیر برائے بنیادی تعلیم ستیش دیویدی پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی ارون دیویدی کو ای ڈبلیو ایس کوٹے سے سدھارتھ نگر یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز کرایا۔ جب یہ تقرری عمل میں آئی تو اس سے ایک دن قبل ہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سریندر دوبے کی مدت کار میں توسیع کر دی گئی۔ الزام ہے کہ وائس چانسلر نے بدلے میں ارون کی تقرری کی۔


تاہم، وائس چانسلر سریندر دوبے ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انٹرویو اور سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر ہی ارون کی تقرری کی گئی ہے۔ اتنا ہی نہیں ارون دیویدی کے ای ڈبلیو ایس کے سرٹیفکیٹ کو بھی جعلی قرار دیا جا رہا ہے۔ الزام ہے کہ وزیر ستیش دیویدی نے اپنے بھائی ارون دیویدی کا فرضی ای ڈبلیو ایس سرٹیفکیٹ تیار کروایا۔ تاہم، ارون دیویدی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔