عدالتی فیصلے حکومتیں برسوں نافذ نہیں کرتیں، یہ غیر فعالیت ملک کے لیے اچھی نہیں: چیف جسٹس آف انڈیا

چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا کہ متعلقہ لوگوں کی ضرورتوں اور امیدوں کو شامل کرتے ہوئے گہرائی کے ساتھ بحث اور مذاکرہ کے بعد قانون بنایا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس این وی رمنا
چیف جسٹس این وی رمنا
user

قومی آواز بیورو

دہلی کے وگیان بھون میں وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشترکہ تقریب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے کئی اہم باتیں رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’عدالت کے فیصلے حکومتوں کے ذریعہ برسوں نافذ نہیں کیے جاتے ہیں۔ عدالتی اعلانات کے باوجود قصداً غیر فعالیت ہے، جو ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ حالانکہ پالیسی بنانا ہمارے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے، اگر کوئی شہری اپنی شکایت لے کر ہمارے پاس آتا ہے تو عدالت منع نہیں کر سکتی۔‘‘

چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ’’ہمیں لکشمن ریکھا کا دھیان رکھنا چاہیے۔ اگر یہ قانون کے مطابق ہو تو عدلیہ کبھی بھی حکومت کے راستے میں نہیں آئے گی۔ اگر میونسپلٹیز، گرام پنچایتیں ذمہ داریوں کو نبھاتی ہیں، اگر پولیس ٹھیک سے جانچ کرتی ہے اور ناجائز حراست میں مظالم ختم ہوتے ہیں، تو لوگوں کو عدالتوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’متعلقہ لوگوں کی ضرورتوں اور امیدوں کو شامل کرتے ہوئے گہرائی کے ساتھ بحث اور مذاکرہ کے بعد قانون بنایا جانا چاہیے۔ اکثر ایگزیکٹیوز کی غیر کارکردگی اور مقننہ کے غیر فعالیت کی وجہ سے مقدمے بازی ہوتی ہے جو قابل گریز ہے۔‘‘


این وی رمنا کا کہنا ہے کہ ’’مفاد عامہ عرضی (پی آئی ایل) کے پیچھے اچھے ارادوں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ اسے منصوبوں کو روکنے اور عوامی اتھارٹی کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ’نجی مفاد عرضی‘ میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ سیاسی اور کارپوریٹ حریفوں کے ساتھ اسکور طے کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔