چمپئی سورین نے اپنی پارٹی بنانے کا عزم کیا ظاہر، جے ایم ایم کی مشکلات بڑھنے کا اندیشہ

چمپئی سورین کا کہنا ہے کہ انھوں نے دہلی میں کسی بی جے پی لیڈر سے ملاقات نہیں کی بلکہ وہ اپنے بچے اور پوتے سے ملنے گئے تھے، ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ قبائلی، دلت اور غریبوں کے لیے ہمیشہ کام کرتے رہیں گے۔

<div class="paragraphs"><p>چمپئی سورین / آئی اے این ایس</p></div>

چمپئی سورین / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ چمپئی سورین ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔ کبھی ان کے سیاست سے سبکدوش ہونے کے امکانات ظاہر کیے جاتے ہیں تو کبھی بی جے پی میں شامل ہونے کی بات ہوتی ہے۔ اس درمیان چمپئی سورین نے ایک بڑا بیان دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ سیاست سے سبکدوش نہیں ہوں گے، بلکہ اپنی زندگی کا ایک نیا باب شروع کرنے والے ہیں۔ چمپئی سورین نے اپنی ایک علیحدہ پارٹی بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ہمارا جو نظریہ ہے، اس نظریہ والا کوئی نیا ساتھی ملے گا تو اس کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔‘‘

یہ بیان چمپئی سورین نے ’اے بی پی نیوز‘ سے بات چیت کے دوران دیا ہے۔ چمپئی سورین کے اس اعلان سے جھارکھنڈ میں برسراقتدار جے ایم ایم کی مشکلات بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دراصل چمپئی سورین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’سورین فیملی‘ کے بہت قریبی ہیں۔ اس لیے ان کا الگ پارٹی بنانا جے ایم ایم کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔


بی جے پی سے ناطہ جوڑنے کی قیاس آرائیوں پر چمپئی سورین نے کہا کہ دہلی میں ہم نے کسی بی جے پی لیڈر سے ملاقات نہیں کی۔ وہاں اپنے بچے اور پوتے سے ملنے گئے تھے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ہم نے عوام کے سامنے اپنی سوچ کو آئینے کی طرح صاف کر کے رکھ دیا ہے۔ قبائلیوں، دلتوں اور غریبوں کے لیے ہم پہلے بھی جدوجہد کرتے تھے، آگے بھی کرتے رہیں گے۔

جے ایم ایم کی طرف سے پارٹی نہ چھوڑنے کی گزارش پر چمپئی سورین نے کہا کہ ہر آدمی کا اپنا نظریہ ہے۔ جے ایم ایم کے لیڈروں کی جو بھی سوچ ہے، وہ اچھی ہے۔ اب تو اسمبلی انتخاب ہونے والے ہیں، اس لیے پورے جھارکھنڈ کا دورہ کرنے کا ارادہ ہے۔ چمپئی سورین کے گاؤں والے اس معاملے میں ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی سے انھیں زبردستی ہٹا کر بے عزتی کی گئی ہے۔ ایسے میں اگر چمپئی سورین اپنی پارٹی بناتے ہیں تو ان کا ساتھ دیا جائے گا۔ لیکن بی جے پی کے ساتھ جانے پر کئی لوگوں نے ان کی حمایت نہ کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔