ہماچل پردیش انتخاب میں اپنے ہی باغیوں سے بی جے پی پریشان، نڈا کی کوششیں بھی بے کار، سخت کارروائی کی تیاری

بی جے پی کے باغی امیدواروں کو جتنا زیادہ ووٹ ملے گا، اتنا ہی کانگریس کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے، ایسے میں بتایا جا رہا ہے کہ ڈیمیج کنٹرول کے لیے بی جے پی باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کر سکتی ہے۔

بی جے پی صدر جے پی نڈا / تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی صدر جے پی نڈا / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

ہماچل پردیش اسمبلی انتخاب کی تیاری میں مصروف بی جے پی کےل یے اس کے باغی لیڈران ہی بڑی انتخابی مصیبت بن گئے ہیں۔ ریاست میں اسمبلی کی سبھی 68 سیٹوں پر 12 نومبر کو ووٹنگ ہونی ہے۔ پہاڑی ریاست ہماچل پردیش میں بیشتر اسمبلی سیٹوں پر کچھ ہزار ووٹوں کا فرق ہی جیت ہار طے کرنے میں اہم کردار نبھاتا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے اس کے اپنے ہی باغی لیڈران پریشانی کا بڑا سبب بن گئے ہیں۔

بی جے پی ہر انتخاب میں حکومت بدلنے کی سیاسی روایت کو توڑتے ہوئے اس بار ’حکومت نہیں، رواج بدلیں‘ کے نعرہ کے ساتھ انتخاب لڑ رہی ہے۔ لیکن پارٹی کے باغیوں نے بی جے پی لیڈروں کی فکر بڑھا دی ہے۔ اپنا آبائی شہر ہونے کے سبب بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے ناراض اور باغی لیڈروں کو منانے کا ذمہ خود سنبھالا تھا۔ نڈا نے لگاتار ناراض لیڈروں سے ملاقات بھی کی، پارٹی کے آفیشیل امیدوار کے خلاف انتخاب لڑ رہے لیڈروں کو ہر طریقے سے سمجھانے کی بھی کوشش کی۔


جے پی نڈا کو اپنی اس مہم میں کئی محاذ پر کامیابی بھی ملی لیکن پارٹی کے قومی صدر کی تمام کوششوں کے باوجود اب بھی پارٹی کے تقریباً 21 لیڈران باغی ہو کر بی جے پی امیدواروں کے خلاف بطور آزاد امیدوار میدان میں اتر رہے ہیں۔ ان باغی لیڈروں میں پارٹی کے ساتھ کئی دہائیوں سے جڑے ہوئے قدآور لیڈر بھی شامل ہیں، جن کے انتخاب لڑنے سے بی جے پی کے امیدواروں کو نقصان ہونا طے مانا جا رہا ہے۔

بی جے پی کے ان باغی امیدواروں کو جتنا ووٹ ملے گا، اتنا ہی کانگریس کے امیدواروں کو فائدہ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ ایسے میں بتایا یہ جا رہا ہے کہ ڈیمیج کنٹرول کے لیے بی جے پی ان باغی لیڈروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا ذہن تیار کر چکی ہے اور جلد ہی اس کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔


دراصل بی جے پی کا یہ ماننا ہے کہ سخت کارروائی کر کے ایک طرف جہاں بی جے پی کے کیڈر کو واضح پیغام مل جائے گا تو وہیں دوسری طرف ووٹ کرنے کو لے کر کنفیوزڈ ووٹرس کے من میں بھی بی جے پی امیدوار کو لے کر تصویر واضح ہو جائے گی۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ باغی لیڈروں پر بی جے پی کے اس ہتھکنڈے کا ووٹنگ اور انتخابی نتائج پر کتنا اثر پڑے گا یا اثر ہوگا بھی یا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔