’ہمیں اپنی مساجد اور مدارس کے لیے کسی سرکاری امداد کی ضرورت نہیں‘، مولانا ارشد مدنی کی دو ٹوک

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ ’’صرف ہمیں ہی نہیں، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی مذہبی دانشوروں کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم مدارس کے نظام کو آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘

مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی
user

قومی آواز بیورو

کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ کی 31 اکتوبر کو ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’ہم جدید تعلیم کے قطعی خلاف نہیں ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کے بچے انجینئر، سائنسداں، وکیل اور ڈاکٹر بنیں۔ بڑھ چڑھ کر مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لیں اور کامیابی حاصل کریں۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمارا بچا مذہب اسلام اور اس کے عقیدوں کو جانیں۔ اس لیے کہ جس طرح قوم کو ڈاکٹر، وکیل، بیرسٹر اور انجینئر کی ضرورت ہے، اسی طرح ہماری قوم کو بہتر سے بہتر مفتی اور بہتر سے بہتر مذہبی دانشوروں کی ضرورت ہے۔ اور یہ کمی مدارس کے ذریعہ ہی پوری ہو سکتی ہیں۔‘‘

مولانا ارشد مدنی نے ساتھ ہی کہا کہ ’’صرف ہمیں ہی نہیں، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی مذہبی دانشوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مدارس کے نظام کو آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘ صدر جمعیۃ نے اس دوران جنگ آزادی میں مدارس، خصوصاً دارالعلوم کے کردار اور اس کے قیام کے مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا اور کہا کہ ’’دارالعلوم کے قیام کے مقاصد میں صرف تعلیم نہیں بلکہ ملک کی آزادی بھی تھی اور اس کے لیے مدارس کے ذمہ داران نے جنگ آزادی میں اہم کردار نبھایا۔ لیکن آزادی کے حصول کے بعد علماء سیاست سے بالکل الگ ہو گئے اور انھوں نے ملک کی خدمت کے لیے ہی اپنی سرگرمیاں باقی رکھیں۔‘‘


نامہ نگاروں سے مخاطب ہوتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے واضح کیا کہ مذہبی اشخاص کے کندھے پر مذہب کی ذمہ داری ہے۔ مدارس میں امام، موذن، مفتی اور قاضی تیار ہوتے ہیں جو مسلمانوں کے مختلف مذہبی امور کو انجام دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کی ذمہ داری جس طرح ملک کے دیگر مذاہب کے لوگ شادی، انتقال کے بعد چودہویں، چالیسویں اور مندروں میں پجاریوں کی ہوتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں اپنی مساجد اور مدارس کے لیے کسی سرکاری امداد کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی مدارس کا انسلاک کسی امداد کے لیے کسی سرکاری بورڈ سے منظور ہے۔‘‘ وہ تاریخی حوالے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’دارالعلوم دیوبند کے قیام کے وقت ہی یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر معاملے طے کیے جائیں گے۔ اسی وجہ سے پرانی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ غیر مسلم لوگ بھی مدارس میں داخلہ لیتے تھے۔ اس لیے مدارس کا وجود ملک کی مخالفت کے لیے نہیں، بلکہ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے ہے۔ مدارس کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ اس کی گواہ ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔