بجنور: این آئی اے افسر تنزیل احمد کے قاتلوں کو پھانسی کی سزا دینے کا اعلان
تنزیل احمد اور ان کی بیوی کا 2 اپریل 2016 کو گولیوں سے چھلنی کر قتل کر دیا گیا تھا، پولیس کے مطابق منیر احمد نے اپنے ساتھی ریان کے ساتھ مل کر اس قتل واقعہ کو انجام دیا تھا۔
ملک کے مشہور قتل واقعات میں سے ایک این آئی اے افسر تنزیل احمد کے قتل معاملے میں بجنور کی عدالت نے قصورواروں کو پھانسی کی سزا دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ تنزیل احمد اور ان کی بیوی کا 2 اپریل 2016 کو گولیوں سے چھلنی کر قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے تنزیل احمد کے قتل معاملے میں ایک ملزم منیر احمد کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ منیر احمد نے اپنے ساتھی ریان کے ساتھ مل کر اس قتل واقعہ کو انجام دیا تھا۔ تنزیل احمد کے جسم پر گولیوں کے 33 نشانات تھے، اور ان کی بیوی کے جسم پر بھی 6 زخم موجود تھے۔ جب تنزیل احمد اور ان کی بیوی کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا تو ان کے دونوں بچے بھی گاڑی میں موجود تھے اور انھوں نے کسی طرح سیٹ کے نیچے چھپ کر اپنی جان بچائی تھی۔ اس قتل واقعہ کی جانچ این آئی اے نے بھی کی تھی۔ اس میں این آئی اے کے تین آئی جی نے اہم کردار نبھایا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ واقعہ والے دن تنزیل احمد اپنی بیوی کے ساتھ ویگنار گاڑی سے بجنور ضلع کے سیوہارا علاقے میں گئے تھے۔ وہ اسی ضلع کے سہسپور کے رہنے والے تھے۔ رات میں 12 بجے سہسپور کے تالکٹورا تالاب کے پاس ایک پلیا کے نزدیک بائک پر پہنچے دو نوجوانوں نے بے حد پیشہ ور انداز میں انھیں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اس دوران تنزیل احمد کی موقع پر ہی موت ہو گئی اور ان کی بیوی فرزانہ کی اسپتال میں علاج کے دوران 13 اپریل کو موت ہو گئی۔
آج دوپہر بجنور کی اے ڈی جے عدالت میں جج ڈاکٹر وجے کمار تالیان نے دو قصورواروں کو پھانسی کی سزا دینے کا اعلان کر دیا۔ منیر اور ریان کو جمعہ کو قصوروار ثابت کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں بطور ملزم شامل کیے گئے دیگر دو شخص رضوان اور جینی کو بری کر دیا گیا ہے۔ اس قتل واقعہ میں مہلوک کے بیٹے اور بیٹی کی گواہی نے اہم کردار نبھایا۔ یہ دونوں اسی کار میں موجود تھے۔ تنزیل احمد کے بھائی راغب مسعود نے بتایا کہ واقعہ والے دن وہ اپنے بھائی کے ساتھ شادی سے لوٹ رہے تھے اور ان کی کار کے پیچھے تھے۔ منیر احمد انہی کے گاؤں کا رہنے والا تھا اور مجرمانہ ذہنیت رکھتا تھا۔ تنزیل بھائی اسے ڈانٹتے تھے، اسے لگتا تھا کہ ایک ہی گاؤں کا ہونے کے سبب وہ اس کی مجرمانہ سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں : مدھیہ پردیش: مسلم ہونے کے شبہ میں جین بزرگ کا پیٹ پیٹ کر قتل
تحقیقاتی ٹیم میں شامل رہے ایس ٹی ایف کے ایک سابق افسر کے مطابق منیر احمد اے ایم یو سے پڑھ کر آیا تھا اور وہاں بھی اس پر مقدمہ درج ہوا تھا۔ وہ ایک سائیکو کلر (نفسیاتی مرض میں مبتلا قاتل) کی طرح تھا۔ بجنور میں اس نے 90 لاکھ کی لوٹ کا ایک معاملہ بھی انجام دیا تھا۔ اس پیسے سے وہ اے کے-47 خریدنا چاہتا تھا۔ تنزیل احمد کو اپنے نیٹورک سے یہ بات پتہ چل گئی۔ منیر احمد کو بھی یہ جانکاری ہو گئی کہ تنزیل احمد اس کی گرفتاری کروا سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھا کہ تنزیل احمد کا قتل کر دیا گیا۔
اس قتل واقعہ کے 3 مہینے بعد یوپی ایس ٹی ایف نے منیر احمد کو نوئیڈا کے بشرخ علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ منیر پر اس وقت 2 لاکھ روپے کا انعام اعلان کیا گیا تھا۔ یہاں منیر احمد کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا تھا کہ جس پستول سے منیر احمد نے ڈپٹی پولیس سپرنٹنڈنٹ تنزیل احمد کا قتل کیا تھا، اس پستول کو منیر نے لکھنؤ میں ایک جج کے سیکورٹی اہلکار سے لوٹا تھا۔ پولیس نے بتایا تھا کہ منیر نے تنزیل احمد کا قتل مخبری سے پریشان ہو کر کیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔