نہیں رہے بھوپیندر، خاموش ہو گئی ’ایک اکیلا اس شہر میں‘ گانے والی مخملی آواز

بھوپیندر کو سنگیت پریمی اور ان کے چاہنے والے آج بھی موسم، ستے پہ ستہ، آہستہ آہستہ، دوریاں، حقیقت اور دیگر فلموں میں گائے گئے گانوں کے لیے یاد کر رہے ہیں۔

بھوپیندر سنگھ
بھوپیندر سنگھ
user

راجدیپ پاٹھک

جب ملک کے نئے صدر جمہوریہ کے انتخاب اور پارلیمنٹ کی کارروائی کی خبریں سرخیاں بنی ہوئی تھیں، اسی دوران خبر آئی کہ ’ایک اکیلا اس شہر میں‘ گانے والی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ بھوپیندر کی آواز نے نوجوانوں کی کئی نسلوں، طلبا اور کام کرنے والے غیر شادی شدہ طبقہ کو اپنی آواز سے دہائیوں تک مسحور کیا۔

بھوپیندر سنگھ کی گزشتہ شب (18 جولائی 2022) کو موت ہو گئی۔ پیٹ کے کینسر اور کووڈ سے جڑی میڈیکل کنڈیشنز کے سبب 82 سالہ بھوپیندر آخرت کے سفر پر خاموشی سے روانہ ہو گئے۔ ان کی بیوی متالی مکھرجی نے ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔ اپنی تقریباً پانچ دہائیوں کے موسیقی پر مبنی سفر میں پنجاب کے امرتسر میں پیدا بھوپیندر نے ہندوستانی فلمی موسیقی کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ کام کیا۔ محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، آر ڈی برمن اور بپی لاہری جیسے موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ بھوپیندر نے جگل بندی کی۔


بھوپیندر کو سنگیت پریمی اور ان کے چاہنے والے آج بھی موسم، ستے پہ ستہ، آہستہ آہستہ، دوریاں، حقیقت اور دیگر فلموں میں گائے گئے گانوں کے لیے یاد کر رہے ہیں۔ ان کے کچھ گانے تو دہائیوں بعد بھی لوگوں کی زباں پر ہیں۔ ’دل ڈھونڈتا ہے، پھر وہی فرصت کے رات دن‘، ’نام گم جائے گا...‘، ’ایک اکیلا اس شہر میں‘، ’کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے‘ جیسے نغمے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کے نغمے روزمرہ کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں ہمیشہ تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح روح کو سکون پہنچاتے ہیں۔

بھوپیندر نے اپنے کیریر کی شروعات آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے کی اور جلد ہی وہ دہلی دوردرشن کیندر جا پہنچے۔ یہیں پہلی بار لوگوں کو یہ مخملی اور ٹھوس، یعنی بالکل الگ سی سریلی آواز سننے کو ملی۔ پھر شناخت اور کامیابی ملنا شروع ہو گئی، لیکن نیا سیکھنے کی للک کے سبب بھوپیندر نے اسی دوران گٹار اور وائلن بجانا بھی سیکھ لیا۔ بات 1964 کی ہے جب اپنے زمانے کے مشہور موسیقار مدن موہن نے انھیں ریڈیو پر سنا اور فوراً بمبئی (اب ممبئی) آنے کو کہا۔ بھوپیندر بمبئی پہنچے اور مدن موہن نے انھیں چیتن آنند کی فلم ’حقیقت‘ کا گانا ’ہو کے مجبور مجھے اس نے بلایا ہوگا‘ گانے کو کہا۔ اس گانے کو محمد رفیع نے بھی گایا ہے۔ یہ گیت راتوں رات ہِٹ ہو گیا۔ لیکن بھوپیندر کی شہرت اور فلمی گیتوں کی کامیابی میں شاید ابھی تاخیر تھی۔ انھوں نے کچھ کم بجٹ والی فلموں کے گیت بھی گائے، لیکن انھیں اتنی پہچان نہیں مل سکی۔


اسی دوران سنگیت میں لگاتار نئے نئے تجربے کرنے والے پنچم (آر ڈی برمن) کی نظر بھوپیندر پر پڑی اور انھوں نے بھوپیندر کو اپنے آرکیسٹرا میں گٹار بجانے کے لیے رکھ لیا۔ پنچم کے مشہور نغمہ ’دَم مارو دَم‘ کا مشہور شروعاتی گٹار والا ساز بھوپیندر نے ہی بجایا ہے۔ دھیرے دھیرے بھوپیندر اور آر ڈی برمن کی دوستی گہرانے لگی۔ اسی بیچ پنچم نے گلزار کی 1972 میں آئی فلم ’پریچے‘ کے نغمے بھوپیندر کو ہی گانے کو کہا۔ اس فلم میں بھوپیندر نے دو نغمے گائے ’بیتی نہ بتائی رینا‘ اور ’متوا بولے، میٹھی با...‘۔ ان دو نغموں نے بھوپیندر کو بے حد مقبول اور مشہور کر دیا۔ اس طرح بھوپیندر ہندی فلم انڈسٹری میں ایک گلوکار کی طرح قائم ہو گئے۔

آنے والے سالوں میں بھوپیندر نے اپنے پرائیویٹ البم بھی نکالے۔ ان کی پہلی ایل پی (وینائل پر ریکارڈ ہونے والی) میں ان کے اپنے کمپوز کیے تین نغمے تھے۔ اسے 1968 میں ریلیز کیا گیا۔ اس کے بعد 1978 میں انھوں نے اپنی کمپوز کی گئی غزلوں کا بھی ایک ایل پی ریلیز کیا۔ اس میں بھوپیندر نے اسپینش گٹار، بیس اور ڈرم کا غزل اسٹائل میں استعمال کیا۔ 1980 میں انھوں نے اپنے تیسرے ایل پی کو ’وہ جو شاعر تھا‘ کے نام سے ریلیز کیا۔ اس میں بھوپیندر نے گلزار کی لکھی غزلیں گئیں۔


اسی دوران بھوپیندر کی ملاقات بنگلہ دیش کی ایک گلوکارہ میتالی مکھرجی سے ہوئی اور اس کے ساتھ ہی بھوپیندر کو ایک کے بعد ایک کامیابی ملنے لگی۔ جلد ہی دونوں نے شادی کر لی، حالانکہ اس شادی سے کئی لوگوں کو حیرانی بھی ہوئی۔ اس کے بعد اچانک بھوپیندر نے 1980 کی دہائی کے وسط میں خود کو پلے بیک سنگر سے الگ کر لیا۔ یعنی انھوں نے فلموں کے لیے گانا بند کر دیا۔ لیکن انھوں نے اپنی بیوی میتالی کے ساتھ البم جاری کرنا اور لائیو کنسرٹ میں حصہ لینا جاری رکھا۔ اس جوڑی نے غزل اور گیتوں کے کئی کیسٹ جاری کیے۔ بھوپیندر کا ایک بیٹا ہے جس کا نام نہال سنگھ ہے اور وہ بھی موسیقار ہے۔

بیوی میتالی کے ساتھ جب بھوپیندر کی بھاری اور گہرائی سے آتی گول آواز سنائی دیتی تو لوگ جھوم اٹھتے تھے۔ ان کا ساتھ میں گایا گیت ’دو دیوانے اس شہر میں‘ خوب مشہور ہوا۔ اسی طرح ان کی آواز میں نغمہ ’نام گم جائے گا‘، ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘، ’ایک اکیلا اس شہر میں‘، ’حضور اس قدر بھی نہ اترا کے چلیے‘ آج بھی سکون دیتے ہیں۔


خدا کی عطا کردہ آواز سے بھوپیندر نے کئی یادگار نغمے لوگوں کو دیئے۔ موسیقی میں ان کے اس تعاون کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے 1975 کی فلم موسم کا نغمہ...

یا گرمیوں کی رات جو پُروئیاں چلیں

ٹھنڈی سفید چادروں پر، جاگیں دیر تک

تاروں کو دیکھتے رہیں، چھت پر پڑے ہوئے

دل ڈھونڈتا ہے، پھر وہی، فرصت کے رات دن...

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔