ضرورت بیماری کے علاج کی ہے
جے رام رمیش نے ٹوئٹ کیا کہ 53 سال قبل اسی دن بینکوں کو نیشنلائزڈ کیا گیا تھا۔ یہ ایک بدلاؤ والی تبدیلی تھی۔ مودی حکومت ہندوستان بیچے جاؤ اسکیم کے تحت سرکاری بینکوں کی بھی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔
آج ہی کے دن 1969 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ہندوستان کے 14 بڑے بینکوں کو نجی ہاتھوں سے لے کر حکومت کے ہاتھوں میں دینے کا اعلان کیا تھا۔ اندرا گاندھی کے لئے سیاسی طور پر بہت بڑا فائدہ ہوا اور عوام نے بینکوں کو نیشنلائزڈ کرنے کے ان کے فیصلے کی زبردست حمایت کی۔
آج صورتحال بدلی ہوئی ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ پبلک سیکٹر بینکوں کو نجی ہاتھوں میں دے دیا جائے۔ حکومت کی اس پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے ٹوئٹ کیا کہ ’’53 سال قبل اسی دن بینکوں کو نیشنلائزڈ کیا گیا تھا۔ یہ ایک بدلاؤ والی تبدیلی تھی۔ مودی حکومت ہندوستان بیچے جاؤ اسکیم کے تحت سرکاری بینکوں کی بھی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ پبلک سیکٹر کے بینکوں کو چنندا لوگوں کو فروخت کرنا تباہ کن ہوگا۔ کانگریس بیچے جانے والے بل کی مخالفت کرے گی۔‘‘ اس کا مطلب صاف ہے کہ آنے والے دنوں میں یعنی مانسون اجلاس کے دوران حکومت یہ بل لانے والی ہے۔
واضح رہے 1969 میں اندرا گاندھی نے ان 14 بڑے بینکوں کو نیشنلائزڈ کیا تھا جن کے پاس بینک میں جمع رقم کا 80 فیصد حصہ تھا۔ 1955 میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا واحد ایسا بینک تھا جو حکومت کے ہاتھوں میں تھا یعنی وہ واحد پبلک سیکٹر بینک تھا۔ اس کے بعد 1980 میں مزید چھ بینکوں کو نیشنلائزڈ کیا گیا۔
بینکوں کو نیشنلائزڈ کرنے سے جہاں اندرا گاندھی کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا وہیں عوام اور بینکوں کو بھی فائدہ ہوا۔ اس فیصلے سے اندرا گاندھی کو پرانے کانگریسیوں کا اثر رسوخ کم کرنے میں مدد ملی اور وہ اپنا سیاسی دبدبا قائم کرنے میں کامیاب رہیں۔ عوام اور بینکوں کو اس لئے فائدہ ہوا کیونکہ لوگوں نے بینکوں میں زیادہ رقم جمع کرنی شروع کر دی، کیونکہ ان کو سرکاری بینکوں پر اعتماد زیادہ تھا۔ جب بینکوں کے پاس زیادہ پیسہ آیا تو حکومت کو اپنی ترجیحات طے کرنے کا بھی موقع ملا۔ حکومت نے زیادہ پیسہ زراعات اور چھوٹی صنعت پر خرچ کرنا شروع کر دیا۔
ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے سب کچھ اچھا ہوا بلکہ اس کے خراب نتائج بھی سامنے آئے۔ حکومت کی زیادہ مداخلت کی وجہ سے بینکوں میں ’نان پرفارمنگ ایسٹس‘ میں اضافہ ہوا۔ حکومت اس معاملہ میں ضروری فاصلہ برقرار نہیں رکھ پائی، جس کی وجہ سے بینکوں کے کام کاج بری طرح متاثر ہوئے۔ حکومت نے 1991 میں اس کے حل کے لئے میداوولو نرسمھم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے سفارش کی کہ پبلک سیکٹر بینکوں کے کام کاج میں بہتری لانے کے لئے حکومت کو اپنا حصہ گھٹا کر صرف 33 فیصد کر دینا چاہئے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بینکوں کو نجی ہاتھوں سے لے کر سرکاری ہاتھوں میں دینا ایک بہت بڑا اور انتہائی ضروری قدم تھا لیکن سیاسی رہنماؤں کی بیجا مداخلت کی وجہ سے اس اہم اور ضروری قدم کو نقصان پہنچا۔ اور اب بھی حکومت بیماری کا علاج کرنے کے بجائے بیمار کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے۔ ان بینکوں کو سرکاری ہاتھوں میں لینے کا اصلی مقصد پیسوں کو چند ہاتھوں میں سمیٹے جانے کے خلاف تھا اور اگر اب پھر ان سرکاری بینکوں کو نجی ہاتھوں میں دیا گیا تو حکومت کی اقتصادیات تو متاثر ہوگی ہی ساتھ میں چند افراد یا خاندان پیسوں کے اعتبار سے بہت مضبوط ہو جائیں گے اور وہ پیسوں کی زیادتی کی وجہ سے حکومت کو اپنی انگلیوں پر نچائیں گے۔ آج کی ضرورت بیماری کے علاج کی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔