گیانواپی مسجد تنازعہ: الٰہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ
مسجد کمیٹی کی طرف سے دیوانی مقدمہ کی برقراری پر سوال اٹھائے گئے اور دلیل دی گئی کہ یہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 اور دیوانی عمل کوڈ کے حکم 7 و رول 11 سے ممنوع ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو گیانواپی مسجد اور وشویشور مندر تنازعہ معاملے میں سماعت کرتے ہوئے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ جسٹس روہت رنجن اگروال نے بنیادی مقدمہ کی برقراری کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر متعلقہ فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔
وارانسی کی انجمن انتظامیہ کمیٹی اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ نے 1991 میں وارانسی کی عدالت میں داخل بنیادی مقدمہ کی برقراری کو چیلنج دیا تھا۔ اس مقدمہ میں اس جگہ پر قدیم مندر بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں اِس وقت گیانواپی مسجد موجود ہے۔ کیس میں دلیل دی گئی ہے کہ وہ مسجد دراصل اس قدیم مندر کا حصہ ہے۔ لگاتار چل رہی سماعت کے دوسرے دن عدالت نے گیانواپی احاطہ کا سائنسی سروے کرائے جانے کے حکم پر دونوں فریقین کی دلیلیں سنیں۔
اس دوران دیوانی مقدمہ کی برقراری کو لے کر بھی سوال کھڑے ہوئے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ پاس کیے گئے حکم کا حوالہ بھی دیا گیا۔ دونوں عرضی دہندگان کی طرف سے وارانسی کی ضلع عدالت میں 1991 میں داخل دیوانی مقدمہ (سول سوٹ) کی برقراری اور گیانواپی احاطہ کا اے ایس آئی سروے کرائے جانے کے مطالبہ کو چیلنج دیا گیا ہے۔ کیس منتقل ہونے کے بعد اس معاملے کی سماعت کر رہی تیسری عدالت نے تین تاریخوں میں مکمل بحث سن لی۔
جمعہ سے قبل اس معاملے میں جمعرات اور 5 دسمبر کو سماعتیں ہوئی تھیں۔ گزشتہ دو دنوں سے لگاتار بحث جاری رہی۔ مسجد کمیٹی کی طرف سے جہاں دیوانی مقدمہ کی برقراری پر سوال اٹھائے گئے اور دلیل دی گئی کہ یہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 اور دیوانی عمل کوڈ (سول پروسیجر کوڈ) کے حکم 7 اور رول 11 سے ممنوع ہیں، وہیں ہندو فریق کی طرف سے کہا گیا کہ یہ ایکٹ اس معاملے میں نافذ نہیں ہوتا ہے۔
دونوں فریقین کی طرف سے اپنی اپنی دلیلوں کی تصدیق کے لیے ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے درجنوں کیس کا حوالہ دیا گیا۔ انجمن انتظامیہ کمیٹی کے وکیل ایس ایف اے نقوی کے مطابق اس عرضی میں گیانواپی مسجد کا ایک مجموعی سروے کرنے کے لیے اے ایس آئی کو دی گئی ہدایت کو بھی چیلنج پیش کیا گیا ہے۔ یہ ہدایت وارانسی کی ایک عدالت نے 8 اپریل کو 2021 کو دی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔