تین سالوں میں 'یو اے پی اے' کے تحت 3005 کیسز درج، لیکن صرف 821 فرد جرم وقت پر داخل

فوجداری ضابطہ کے مطابق فرد جرم داخل کرنے کے لیے 60 دنوں کا وقت ہوتا ہے، لیکن یو اے پی اے سے متعلق کیس ہوتا ہے تو سیکورٹی ایجنسیز فرد جرم داخل کرنے کے لیے 180 دنوں کا وقت لے سکتی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

مرکزی حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں 3005 کیسز یو اے پی اے کے تحت رجسٹرڈ ہوئی ہیں جن میں صرف 821 فرد جرم 180 دنوں کے اندر داخل کی گئی ہیں۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کیسز میں 3974 لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے۔ یہ جواب مرکزی وزارت داخلہ نے سی پی آئی رکن پارلیمنٹ بنوئے وسوم کے ذریعہ بدھ کے روز پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں دی۔ جواب مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی) کے 2016 سے 2018 تک کے ڈاٹا کا حوالہ دیتے ہوئے پیش کیا۔

جی کشن ریڈی نے سوال کے تفصیلی جواب میں جانکاری دی کہ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 2016، 2017 اور 2018 میں بالترتیب 999، 1554 اور 1421 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ وزارت نے ساتھ ہی بتایا کہ ان تینوں سالوں میں بالترتیب 232، 272 اور 217 کیسز میں 180 دنوں کے اندر فرد جرم داخل کیا گیا۔ علاوہ ازیں 2017 اور 2018 میں بالترتیب 92 اور 52 فرد جرم داخل کیے گئے جن کی مدت کار ایک سے دو سال کے درمیان رہی۔ وزارت کے مطابق سیکورٹی ایجنسیز کے ذریعہ2017 اور 2018 میں بالترتیب 31 اور 10 فرد جرم دو سال کی تاخیر سے بھی داخل کیے گئے۔


قابل ذکر ہے کہ فوجداری ضابطہ کے مطابق فرد جرم داخل کرنے کے لیے 60 دنوں کا وقت ہوتا ہے، لیکن اگر اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی (سیکشن 409) کا معاملہ ہوتا ہے تو یہ مدت 90 دنوں کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر یو اے پی اے سے متعلق کیس ہوتا ہے تو سیکورٹی ایجنسیز فرد جرم داخل کرنے کے لیے 180 دنوں کا وقت لے سکتی ہیں۔

بہر حال، وزارت کے ذریعہ اس سلسلے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی کہ جو لوگ قید میں تھے، ان میں سے کس کو فرد جرم داخل کرنے میں ہوئی تاخیر کے سبب ضمانت دی گئی۔ وہ شخص ضمانت کا حقدار ہوتا ہے اگر جانچ کرنے والی ایجنسی 90 دن کے اندر فرد جرم داخل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ تاہم ملزم کو 180 دنوں تک ضمانت دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے اگر وہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ یو اے پی اے کے ضابطہ کے مطابق ملزم پیشگی ضمانت بھی نہیں لے سکتا ہے۔


یہ تفصیلات موجودہ وقت میں انتہائی اہم اس لیے ہیں کیونکہ دہلی پولس نے 15 طلبا اور سماجی کارکنان کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا ہے، اور ان میں سیاسی کارکن عمر خالد، خالد سیفی، دیونگنا کلیٹا، گلفشاں فاطمہ اور نتاشا نروال کا نام شامل ہے۔ جبکہ عمر خالد کو اس ہفتے کے شروع میں 10 دنوں کے لیے پولس تحویل میں بھیج دیا گیا ہے اور دیگر اپریل اور مئی سے ہی جیل میں بند ہیں۔

اس سے قبل سماجی کارکن سدھا بھاردواج، رونا وِلسن، سریندر گڈلنگ، شوما سین، مہیش راؤت، ارون فریرا، سدھیر دھوالے 2018 میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہوئے تھے۔ ان کا نام بھیما-کوریگاؤں تشدد سے جوڑا گیا تھا جو کہ جنوری 2018 میں پیش آیا تھا۔ یہ سبھی اب تک جیل میں ہیں۔ ان کے کیسز اب تک آگے نہیں بڑھ پائے ہیں جب کہ ان کے خلاف پونے پولس نے پہلا فرد جرم داخل کیا تھا اور اس کے چھ مہینے گزر چکے ہیں، اور ضمانتیں مستقل طور پر مسترد کر دی گئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔