آج یومِ خواتین ہی نہیں ساحر لدھیانوی کا یومِ پیدائش بھی ہے، ایک شاعر جس نے اپنی نظموں میں خواتین کا درد بیان کیا

بہت کم عمر میں ہی ساحر کے دل میں عورتوں کی جو مشفقانہ تصویر بنی تھی اس کی جھلک ان کی تحریروں میں مل جاتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ساحر لدھیانوی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ساحر لدھیانوی، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

8 مارچ کا دن پوری دنیا میں خواتین کے نام درج ہے، دنیا کے مختلف ممالک اسے اپنے اپنے انداز سے مناتے ہیں۔ اس دن دنیا کی نصف آبادی پر ہونے والے جرائم اور ان کی دبی ہوئی آوازیں بلند کی جاتی ہیں۔ بہت سے نغمہ نگاروں اور شاعروں نے اپنے قلم سے اس حصے (خواتین) کے لیے لکھا ہے۔ اس فہرست میں ساحر لدھیانوی کا نام بھی شالم ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

صرف یہی چند سطریں نہیں ہیں، ساحر نے خواتین کے لیے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ ساحر بھی اسی دن یعنی 8 مارچ (1921) کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ساحر اپنی ماں کے اکلوتے بیٹے تھے لیکن باپ کے نہیں۔ والد نے کئی شادیاں کیں تھیں، ساحر لدھیانوی انہی شادیوں میں سے ایک سے پیدا ہوئے۔ والدین الگ ہو گئے، ساحر اپنی ماں کے پاس پلے بڑھے۔ ماں ان کی زندگی میں واحد خاتون تھی جن کے ساتھ ساحر اپنی زندگی کے تمام دکھ اور خوشیاں بانٹتے تھے۔


ساحر نے تا عمر شادی نہیں کی، کسی بھی قسم کی ذمہ داری نبھانے کے معاملے میں وہ متذبذب رہتے تھے لیکن ماں کا ہمیشہ پورا خیال رکھا۔ ان کے ہم عصر دوست بتاتے ہیں کہ جب ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں کوئی بات چیت ہوتی تھی تو ان کی والدہ اندر کام میں مصروف رہتی تھیں۔ اس درمیان کوئی خوشی کی خبر یا بات ہوتی تو ساحر بھاگ کر اندار جاتے اور ماں کو فوراً بتاتے، جیسے کوئی بچہ اپنی کسی حصولیابی کو فوراً اپنی ماں کے آنچل سے باندھ دینا چاہتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ساحر کی زندگی میں مزید کوئی عورت نہیں آئی۔ کم از کم خبروں کے مطابق تو آئیں ہی۔ ان کے نام کئی لوگوں کے ساتھ جڑے لیکن ساحر بس لکھتے رہے اور ان کے لکھے سے لوگ اندازے لگاتے رہے کہ وہ اب کس کے ساتھ اپنی قربتیں بڑھا رہے ہیں۔ پھر بھی ساری زندگی تنہا رہنے والے ساحر نے محبت پر جو کچھ لکھا ہے، اسے نئے لڑکے اپنے پرچوں میں لکھ کر محبوبہ کو سناتے ہیں اور جو کچھ عورتوں پر لکھا ہے، اسے یوم خواتین پر ایک سلوگن کی طرح گاتے ہیں۔

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

انہوں نے اپنی والدہ پر اپنے والد کے مظالم کو دیکھا تھا۔ بہت کم عمر میں ہی ساحر کے دل میں عورتوں کی جو تصویر بنی تھی، اس کی جھلک ان کی تحریروں میں مل جاتی ہے۔ ان کی تحریروں کو کئی جگہ امرتا پریتم سے جوڑا گیا۔

محفل سے اٹھ جانے والو تم لوگوں پر کیا الزام

تم آباد گھروں کے باسی  میں آوارہ اور بدنام


حالانکہ یہ بھی یک طرفہ بات ہی تھی۔ ساحر نے کبھی اس موضوع پر کچھ نہیں کہا۔ جیسا کہ میں نے لکھا بھی کہ ان کے گیت و غزلیں سن کر ہی لوگ ان کی نزدیکیوں کے اندازے لگاتے تھے۔ لیکن یہ یک طرفہ بات بھی اتنے زور و شور سے مقبول ہوئی کہ ایک فینٹیسی (تصور) بن گئی۔ ساحر-امریتا کی فینٹیسی جو لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی ویسے ہی ہے۔ لیکن ساحر ایک متذبذب طبیعت کے آدمی بھی تھے۔ اپنی تحریروں میں وہ بے باک تھے اور ان کا کام کسی حد تک یہ بتاتا ہے کہ انسان ذہنی طور پر کیسا ہوگا۔ ساحر کی تحریروں سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ وہ خواتین کے تئیں بے حد حساس اور ان کی آواز بلند کرنے والے تو یقیناً تھے ہی۔ انہوں نے ایک نہیں بلکہ کئی نظمیں انہیں منسوب کی ہیں۔ پھر ساحر اور یومِ خواتین کا اتفاق ایک ہی دن سے جڑا بھی ہے تو کیسی حیرت؟

(بشکریہ: دیپالی اگروال، امراجالا ڈاٹ کام)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔