کلکتہ ہائی کورٹ کا فیصلہ، بچے کے برتھ سرٹیفکیٹ پر حیاتیاتی باپ کی جگہ سوتیلے باپ کا نام درج کرنے کی ہدایت

عدالت نے متعلقہ بلدیاتی ادارے کو ہدایت کی ہے کہ وہ بچے کے برتھ سرٹیفکیٹ پر حیاتیاتی باپ کا نام ہٹا کر سوتیلے باپ کا نام درج کر کے اسے نئے سرے سے جاری کرے

کلکتہ ہائی کورٹ / تصویر آئی اے این ایس
کلکتہ ہائی کورٹ / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

کولکاتا: کلکتہ ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ایک بچے کے برتھ سرٹیفکیٹ میں باپ کا نام تبدیل کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے متعلقہ میونسپلٹی (بلدیاتی ادارہ) کو ہدایت کی ہے کہ وہ حیاتیاتی باپ کا نام ہٹا کر سوتیلے باپ کے نام کے ساتھ نئے سرے سے برتھ سرٹیفکیٹ جاری کرے۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس امرتا سنہا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ قانون میں بھی لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون کا استعمال عوام کے مفاد میں ہونا چاہیے۔ جو معاملات عمومی زندگی سے متعلق نہیں ہیں، وہاں قانونی پیچیدگیوں کو کم سے کم کرنا چاہیے۔


بنگال کے نادیہ ضلع کے نودیپ میں ایک خاتون نے متعلقہ میونسپلٹی سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے بچے کے پیدائشی سرٹیفکیٹ سے اس کے حیاتیاتی والد کا نام ہٹا کر اس کے سوتیلے باپ کا نام شامل کرے، جس پر میونسپلٹی نے برتھ سرٹیفکیٹ سے متعلق قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بار پیدائش کا سرٹیفکیٹ والد کے نام کے ساتھ جاری ہو جائے تو اس میں کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ خاتون نے اس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

خاتون نے جس شخص کے ساتھ 2021 میں شادی کی تھی، اس کے ساتھ ان کا ایک بیٹا ہے۔ بعد ازاں دونوں کی طلاق کے بعد خاتون نے دوسری شادی کر لی۔ موجودہ شوہر نے ان کے بیٹے کو گود لے لیا ہے اور وہ اسے اپنا نام دینے کو تیار ہیں، جس کے بعد خاتون نے بلدیاتی ادارے میں درخواست پیش کی۔ جسٹس سنہا نے اپنے مشاہدہ میں کہا کہ بچہ موجودہ عمر میں اپنے حیاتیاتی اور سوتیلے باپ میں فرق نہیں سمجھ پائے گا۔ وہ اپنے سوتیلے باپ کو ہی اپنا حیاتیاتی باپ سمجھ کر بڑا ہوگا۔


بعد میں جب وہ اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں اپنے والد کے بجائے کسی اور کا نام دیکھے گا، تو یہ بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے اور اپنے سوتیلے باپ کے ساتھ اس کا رشتہ بھی خراب ہو سکتا ہے۔ تاہم جج نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر پیدائشی سرٹیفکیٹ سے حیاتیاتی باپ کا نام ہٹا دیا جائے تو بھی بیٹے کا اس کی جائیداد پر حق ختم نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔